فریاد آذر کی غزل۔ محمد وارث کی فرمائش پر

الف عین

لائبریرین
تشنگی ایسے لبوں کی کیا بجھا پاتا فرات
مدتوں سے خود تھا جن کی دید کا پیاسا فرات
تشنگی کو آپ اپنا امتحاں مقصود تھا
ورنہ پاکیزہ لبوں تک خود ہی آجاتا فرات
پھر وہی منظر نظر کے سامنے کیوں آگیا
کربلا، خوں ریزی، کوفہ، تشنگی، صحرا، فرات
اب بھی ہیں صحرا کی آنکھوں سے یونہی آنسو رواں
نام ان کو دے دیے ہیں وقت نے دجلہ فرات
سر پہ آکر رک گیا ہے آفتابِ مغربی
پی نہ جائے یہ کہیں اب سارے کا سارا فرات
شہروں میں اک شہر تھا بغداد کہتے تھے جسے
اور دریاؤں میں آزرؔ ایک تھا دریا فرات
۔۔۔۔
کتاب
گلوبل گاؤں میں
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ آپ کا، آپ نے اتنی جلدی فرمائش پوری کردی، نوازش آپکی۔


حسبِ توقع، بہت خوبصورت غزل ہے، سبھی شعر بہت اعلٰی ہیں۔ امید ہے دوسرے دوستوں کو بھی پسند آئے گی۔

ایک دفعہ پھر بہت شکریہ آپ کا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تشنگی ایسے لبوں کی کیا بجھا پاتا فرات
مدتوں سے خود تھا جن کی دید کا پیاسا فرات

تشنگی کو آپ اپنا امتحاں مقصود تھا
ورنہ پاکیزہ لبوں تک خود ہی آجاتا فرات


عمدہ ، بہت عمدہ


اعجاز انکل

آذر کا کچھ اور انتخاب بھی اگر ممکن ہو تو پوسٹ کر دیجیئے۔

شکریہ
 
Top