کاشفی

محفلین
غزل
(سید احمد علی شمیم عشرت گیاوی)

فروغِ حسن عروجِ شباب دیکھے کون
یہ دوپہر کا چڑھا آفتاب دیکھے کون

فراقِ یار کے جینے سے موت اچھی ہے
یہ روز روز کا رنج و عذاب دیکھے کون

اٹھایا میں نے تو عیش و نشاط روز وصال
شب فراق کا رنج و عذاب دیکھے کون

انہیں نظر ہی نہیں حال زار پر میرے
یہ رنگ زرد یہ چشم پُر آب دیکھے کون

فراقِ یار و غم روزگار و فکر نجات
ہیں ایک جان پہ کیا کیا عذاب دیکھے کون

شعاعِ حسن میں پنہاں ہے عارضِ پُرنور
بنی ہے برق تجلی نقاب دیکھے کون

شب فراق میں ہے کون مونس و ہمدم
تری تڑپ دل پراضطراب دیکھے کون

ہے ساری بزم تو بیخود نگاہِ ساقی سے
سرور نشہ و کیف شراب دیکھے کون

نقاب عارض روشن الٹ تو دی اُس نے
مگر ہے پیش نظر آفتاب دیکھے کون

نہ مصلحت نہ کسی میں یہ طاقتِ دیدار
دکھائے کون رخِ بے حجاب دیکھے کون

جو ہنستے کل تھے اب آج انکو لوگ روتے ہیں
الہٰی دہر کا یہ انقلاب دیکھے کون

بجا ہے ضبط کی تعلیم حضرتِ ناصح
کسی کا درد جگر اے جناب دیکھے کون

کہاں نصیب یہ خال وخط و لب و دنداں
تمہارے ہوتے رخِ آفتاب دیکھے کون

لگادی آگ کلیجہ میں کیسی ساقی نے
یہ برق حل شدہ تھی یا شراب دیکھے کون

سبھی تو حال میں ہیں اپنے مبتلا یارب
ترے سوا مرا حالِ خراب دیکھے کون

کہا یہ شانِ رحیمی نے بخش کر مجھ کو
مقّرِ جرم کی فرد حساب دیکھے کون

کہاں سے چشمِ حقیقت نگر کوئی لائے
نہاں تو ذرّے میں ہے آفتاب دیکھے کون

شبِ فراق میں عشرت نکل کے پہلو سے
کہاں گیا دلِ خانہ خراب دیکھے کون
 
Top