اقبال فردوس میں ایک مکالمہ

عبدالحسیب

محفلین
ہاتف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز
حالؔی سے مخاطب ہوئے یوں سعدؔیِ شیراز
اے آنکہ زنورِ گُہرِ نظمِ فلک تاب
دامن بہ چراغِ مہ و اختر زدہ ای باز!
کچھ کیفیتِ مسلمِ ہندی تو بیاں کر
وامندۃ منزل ہے کہ مصروفِ تگ و تاز
مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں؟
تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمیِ آواز
باتوں سے ہوا شیخ کی حالیؔ متاثر
رو رو کے لگا کہنے کہ " اے صاحبِ اعجاز"
جب پیرِ فلک نے ورق ایّام کا اُلٹا
آئی یہ صدا، پاؤ گے تعلیم سے اعزاز
آیا ہے اس عقیدے میں مگر تزلزل
دنیا تو ملی،طائرِ دیں کر گیا پرواز
دیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر،زمیں تاز
مذہب سے ہم آہنگیِ افراد ہے باقی
دیں زخمر ہے،جمعیتِ ملّت ہے اگر ساز
بنیاد لرز جائے جو دیوارِ چمن کی
ظاہر ہے کہ انجامِ گلستان کا ہے آغاز
پانی نہ ملا زمزمِ ملّت سے جو اس کو
پیدا ہیں نئی پود میں الحاد کے انداز
یہ ذکر حضورِ یژبؐ نہ کرنا
سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غمّاز
'خُرمانتواں یا فت ازراں خار کہ کشتیم
دیبانتواں بافت ازراں پشم کہ رشتیم' (سعدیؔ)
-علامہ اقبالؔ
 
Top