فراق فراق گورکھپوری :::::: کمی نہ کی تِرے وحشی نے خاک اُڑانے میں :::::: Firaq Gorakhpuri

طارق شاہ

محفلین

غزل
کمی نہ کی تِرے وحشی نے خاک اُڑانے میں
جنُوں کا نام اُچھلتا رہا زمانے میں

فِراقؔ! دَوڑ گئی رُوح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مِرے فسانے میں

جنوُں سے بُھول ہُوئی دِل پہ چوٹ کھانے میں
فِراقؔ ! دیر ابھی تھی بہار آنے میں

وہ کوئی رنگ ہے ؟جو اُڑ نہ جائے اے گُلِ تر!
وہ کوئی بُو ہے؟ جو رُسوا نہ ہو زمانے میں

وہ آستیں ہے کوئی؟ جو لہو نہ دے نکلے!
وہ کوئی حُسن ہے ؟ جھجکے جو رنگ لانے میں

یہ گُل کھِلے ہیں کہ چوٹیں جِگر کی اُبھری ہیں
نہاں بہار تھی بُلبُل تِرے ترانے میں

بیانِ شمع ہے، حاصِل یہی ہے جلنے کا!
فنا کی کیفیتں دیکھ جِھلمِلانے میں

کِسی کی حالَتِ دِل سُن کے اُٹھ گئیں آنکھیں
کہ جان پڑ گئی حسرت بھرے فسانے میں

غَرَض کہ کاٹ دیئے زندگی کے دِن، اے دوست!
وہ تیری یاد میں ہُوں، یا تجھے بُھلانے میں

ہَمِیں ہیں گُل، ہَمِیں بُلبُل، ہَمِیں ہَوائے چَمَن
فِراقؔ! خواب یہ دیکھا ہے قید خانے میں

فِراؔق گورکھپوری
( رگھوپتی سہائے)
 
Top