مصطفیٰ زیدی فرار

غزل قاضی

محفلین
فرار

اِس سے پہلے کہ خرابات کا دروازہ گرے

رقص تھم جائے ، اداؤں کے خزانے لُٹ جائیں
وقت کا درد ، نگاہوں کی تھکن ، ذہن کا بوجھ
نغمہ و ساغر و اِلہام کا رُتبہ پا لے
کونپلیں دُھوپ سے اک قطرہ ء شبنم مانگیں
سنگساری کا سزاوار ہو بلّور کا جِسم
دِل کے اُجڑے ہوئے مندر میں وفا کی مِشعل
مصلحت کیشیء طُوفان کی زد میں آجائے
آہُوئے دشتِ جنُوں شہر کی حد میں آجائے

سب کے قدموں میں تمنّا پئے خمیازہ گرے


عاقلو ، دیدہ ورو ، دُوسری راہیں ڈُھونڈو
اِس سے پہلے کہ خرابات کا دروازہ گرے


مصطفیٰ زیدی

( قبائے سَاز )
 
Top