فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ۔۔۔۔۔

فاتح

لائبریرین
لڑکپن کا زمانہ یاد آ گیا جب ہمارے اسکول میں تقریباً روزانہ یہی نعت اسمبلی کے دوران پڑھی جاتی تھی۔ بلکہ دو ایک مرتبہ قاری وحید ظفر قاسمی کو بھی بلوایا گیا تھا اسکول کی محفلِ نعت خوانی میں۔
اقبال عظیم کی اس نعت کے اشعار درج کیے دے رہا ہوں۔
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر, ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
خود ان ہی کو پکاریں گے ہم دور سے, راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے

جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا, بندگی کا قرینہ بدل جائے گا
سر جھکانے کی فرصت ملے گی کسے, خود ہی آنکھوں سے سجدے ٹپک جائیں گے

ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے

اے مدینے کے زائر! خدا کے لئے داستانِ سفر مجھ کو یوں مت سنا
دل تڑپ جائے گا، بات بڑھ جائے گی، میرے محتاط آنسو چھلک جائیں گے

نام ان کا جہاں بھی لیا جائے گا، ذکر اُن کا جہاں بھی کیا جائے گا
نور ہی نور سینوں میں بھر جائے گا، ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے

ان کی چشمِ کرم کو ہے اس کی خبر، کس مسافر کو ہے کتنا شوقِ سفر
ہم کو اقبال جب بھی اجازت ملی، ہم بھی آقا کے دربار تک جا ئیں گے
(اقبال عظیم)
 
Top