( عبد الودود )
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ روایتی بینکاری کا مکمل نظام خلافِ شریعت ہے، مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے دور میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر لین دین میں بینک کا عمل دخل اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اسے نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ ان حالات میں معاشیاتِ اسلامی کے ماہرین کا فرض بنتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا قابلِ عمل اور مکمل اسلامی حل پیش کریں، اور ایسا اسلامی بینکاری سسٹم متعارف کرائیں جو اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہو۔
ہم پہلے مطلق بینک کی تعریف کرتے ہیں: مفتی محمد تقی عثمانی صاحب بینک کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”بینک ایک ایسے تجارتی ادارے کا نام ہے جو لوگوں کی رقمیں اپنے پاس جمع کرکے تاجروں‘ صنعت کاروں اور دیگر ضرورت مند افراد کو قرض فراہم کرتا ہے۔ آج کل روایتی بینک ان قرضوں پر سود وصول کرتے ہیں‘ اور اپنے امانت داروں کو کم شرح پر سود دیتے ہیں‘ اور سود کا درمیانی فرق بینکوں کا نفع ہوتا ہے۔“ (اسلام، جدید معیشت و تجارت، صفحہ 110)
بینک کی تاریخ:
بینک کی تاریخ کے حوالے سے حضرت مفتی صاحب یوں رقم طراز ہیں.... پہلے زمانے میں ”لوگ اپنا سونا صرافوں کے پاس بطور امانت رکھتے تھے اور سنار اس کی رسید لکھ کر دیتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ ان رسیدوں سے ہی معاملات شروع ہوگئے۔ لوگ سونا واپس لینے کے لیے کم آتے تھے‘ تو یہ صورت حال دیکھ کر صرافوں نے سونا قرض دینا شروع کردیا۔ پھر جب یہ دیکھا کہ لوگ عموماً رسیدوں سے ہی معاملات کرتے ہیں تو صرافوں نے بھی قرض خواہوں کو سونے کے بجائے رسیدیں دینی شروع کردیں۔ اسی طرح بینک کی صورت پیدا ہوئی۔ بعد میں اس کو ایک منظم ادارے کی شکل دے دی گئی “۔ (بحوالہ مذکورہ)
غیر سودی بینک کا قیام اور تعریف:
ڈاکٹر محمد نجات اﷲ صدیقی بینک کے قیام کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں:
”بینک کا قیام شرکت ِعنان کے اصول پر عمل میں آئے گا۔ شرکت ِعنان کا مطلب یہ ہے کہ دو یا دو سے زادہ افراد کسی کاروبار میں متعین سرمایوں کے ساتھ ایسے معاہدے کے تحت شریک ہوں کہ سب مل کر کاروبار کریں گے۔ اور کاروبار کے نفع و نقصان میں متعین نسبتوں کے ساتھ شریک ہوں گے۔ یا چند افراد سرمایہ فراہم کریں گے تاکہ اس مشترکہ سرمایہ سے مضاربت پر کاروبار کرایا جائے.... شرکت کی صورت میں لازمی نہیں ہے کہ ہر شریک عملاً کاروبار میں بھی حصہ لے۔ البتہ کسی شریک کو عملی حصہ لینے سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اصولاً اسے حق حاصل رہے گا خواہ وہ عملاً حصہ لے یا نہ لے“
ایک فرد اپنے ذاتی سرمایہ سے بھی بینک قائم کرسکتا ہے۔ اسی طرح حکومت بھی کرسکتی ہے۔ مگر عام طور پر بینک کے قیام کے لیے خطیر سرمایہ درکار ہوتا ہے جو چند افراد مل کر فراہم کرسکتے ہیں۔ ان حصہ داروں کا فراہم کیا ہوا سرمایہ باہم مساوی بھی ہوسکتا ہے اور غیر مساوی بھی‘ جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سرمایہ کی ایک خاص مقدار مثلاً ایک لاکھ روپے کو ایک حصہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ جو شریک جتنے حصے چاہے خرید سکتا ہے۔ کسی حصہ دار کا فراہم کردہ سرمایہ بینک کے مجموعی مشترکہ سرمایہ کے ساتھ جو نسبت رکھتا ہو اسی نسبت سے وہ حصہ دار بینک کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ بینک کے کاروبار کے نتیجے میں منافع کی تقسیم حصص کی تعداد کی نسبت سے ہوتی ہے۔ بینک کے مجموعی نفع کو اس کے مجموعی سرمایہ پر تقسیم کیا جاتا ہے اور اس طرح فی صد جو نفع آتا ہے اسی کے حساب سے ہر صاحب ِسرمایہ کا نفع متعین کیا جاتا ہے۔ اگر کسی سال بینک کے کاروبار میں بحیثیت مجموعی نقصان ہوجائے تو یہ نقصان لازماً شرکاءکے درمیان ان کے سرمایہ کی نسبت سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر شریک کو دوسرے شرکاءکی طرف سے اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ اپنی ذاتی حیثیت سے کوئی دوسرا کاروبار کرسکتا ہے یا کسی کاروباری ادارے میں شرکت یا مضاربت کے اصول پر شامل ہوسکتا ہے۔ وہ سرمایہ قرض لے بھی سکتا اور دے بھی سکتا ہے۔ شرکاءکے انفرادی اور نجی کاروباری تصرفات کا مشترکہ کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
بینک کے کاروبار سے متعلق تمام اہم فیصلے حصہ داروں کی باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں۔ بینکاری چونکہ ایک مسلسل کاروبار ہے، لہٰذا اس کی تکمیل یا اختتام کاکوئی وقت مقرر نہیں ہوتا، ایسے میں ہر سال کے اختتام پر شرکت کے نفع و نقصان کے تعین کے لیے اس کے حسابات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور مجموعی نفع یا نقصان کے تعین کے بعد ہر حصہ دار کے نفع اور نقصان کو متعین کیا جاتا ہے۔ اگر کاروبار میں نفع ہوا ہے تو اس کے حصے کا نفع اسے دے دیا جاتا ہے‘ نقصان کی صورت میں اسے مطلع کیا جاتا ہے کہ اس کے سرمایہ میں نقصان کے بقدر کمی واقع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد پھر اگلے سال کے لیے نئے معاہدے کی تجدید کی جاتی ہے۔ اور نئے مالی سال کے حسابات پچھلے سال سے الگ ہوتے ہیں۔ ہر شریک کو ہر وقت اس کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ شرکت سے علیحدہ ہوجائے۔ کسی حصہ دار کی جانب سے علیحدگی کا نوٹس ملنے پر اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ مشترکہ کاروبار کے حسابات مکمل کرکے اس شریک کا سرمایہ بمع اس کے حصے کے نفع یا نقصان کے واپس کردیا جائے۔ کسی شریک کی موت سے اس شریک کی حد تک شرکت ختم ہوجاتی ہے اور مذکورہ بالا طریقے کے مطابق حسابات مکمل کرکے اس کا سرمایہ مع نفع یا نقصان اس کے شرعی ورثاءیا ان افراد کو واپس کردیا جاتا ہے جن کے حق میں اس نے وصیت کی ہو۔“
(خلاصہ: از غیر سودی بینکاری، ڈاکٹر نجات اﷲ صدیقی)
اسلامی بینکوں کا آغاز اور ارتقاء:
مولانا عبدالرحمن کیانی ؒ لکھتے ہیں:
”بلا سود بینکاری پر آج کل کئی تصانیف منظرعام پر آچکی ہیں جن میں ہر مصنف نے اپنی اپنی دانست کے مطابق بلا سودی بینکاری کے مجمل اور مفصل خاکے پیش کیے ہیں۔ راقم الحروف نے آج سے دس سال قبل اس موضوع پر ایک کتاب کا مسودہ تیار کیا تھا‘ لیکن انہی دنوں ماہنامہ ترجمان القرآن جولائی 1981ءکی اشاعت میں محترم خلیل احمد حامدی صاحب کا ایک مضمون نظر سے گزرا ”اسلامی بینکوں کی عالمی تحریک“ جسے پڑھ کر بہت خوشی حاصل ہوئی۔ جس مقام پر اِس وقت پاکستان کھڑا ہے بعض اسلامی ممالک اس سے بہت آگے نکل کر عملی اقدامات بھی کرچکے ہیں۔ ان بینکوں سے راہنمائی بھی لی جاسکتی ہے جو اس میدان میں اتر کر کام کا آغاز کرچکے ہیں۔ یہاں مضمون سے چیدہ چیدہ اقتباس پیش کرنا مقصود ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ سود کے حامیوں نے جو آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے کہ آج کے دور میں بلا سود بینکاری ناممکن ہی، ان کا یہ دعویٰ بالکل لغو اور باطل ہے۔
خلیل احمد ؒ لکھتے ہیں: غیر سودی بینکاری کا پہلا تجربہ سوشل سیکورٹی بینک آف مصر کی شکل میں ہوا۔
(1) پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدہ رباط 1969ءکے فیصلے کے تحت جدہ میں اسلامی سیکٹریٹ قائم کیا گیا۔ اس کا ایک شعبہ اس غرض کے لیے قائم کیا گیا کہ بلا سود بینکاری کے امکانات و مسائل پر غور کرے۔ چند مصری ماہرین نے اس موضوع پر خصوصی توجہ دی اور ”مصری مطالعہ برائے اسلامی بینکاری“ ہی کے نام سے ایک جامع دستاویز مرتب کی۔ اصل تجویز تو یہ تھی کہ اسلامی سیکٹریٹ کی سرپرستی میں ایک اسلامی بینک کھولا جائے۔ مگر ان مصری ماہرین نے خود ہی عملی اقدام کرڈالا اور قاہرہ میں 1972ءمیں غیر سودی بنیادوں پر ”سوشل سیکورٹی بینک“ قائم کردیا۔
(2)شاہ فیصل مرحوم کی خصوصی توجہ کی بدولت 1975ءمیں جدہ میں دوسرا غیر سودی بینک ”اسلامی ترقیاتی بینک“ کے نام سے کھولا گیا۔ یہ بینک مسلم حکومتوں کے اشتراک و تعاون سے قائم ہوا تھا اور اس سے استفادہ کرنے والے بھی افراد نہیں حکومتیں ہی تھیں، لیکن چونکہ عالم اسلامی کی سطح پر غیر سودی بینکاری کا آغاز ہورہا تھا، اس لیے اس کی متعدد حلقوں کی طرف سے شدید مزاحمت کی گئی۔
سعودی عرب کے ایک اسلام پسند مخلص تاجر شیخ احمد صلاح حمجوم جو اس میدان میں شروع سے بڑی سرگرمی سے کام کررہے ہیں، اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اسلامی بینکوں کے قیام کی تاریخ مَیں ہرگز فراموش نہیں کرسکتا۔ اس تاریخ کا آغاز اُس وقت سے ہوتا ہے جب مرحوم شاہ فیصل نے اسلامی بینک قائم کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا‘ مجھے یاد ہے کہ جب جدہ میں اسلامی کانفرنس کے اجلاس ختم ہوئے تو جدہ میں سعودی بینکوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھرمار ہونے لگی اور وہ شب و روز اس امر کے لیے کوشش کرنے لگے کہ اس اسلامی بینکاری کی مساعی کو پراگندہ کردیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک کے قیام کی قرارداد صادر ہونے کے بعد فرانس کے بعض اخبارات و رسائل نے یہاں تک لکھا کہ
”اگر اسلامی بینک اپنی صحیح شکل میں قائم ہوگیا تو یہ مغرب کے لیے ہائیڈروجن بم سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا“۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے عزائم میں پوری طرح کامیاب ہوگئی، لیکن وہ اس میں ضرور کامیاب ہوگئے کہ اس بینک نے کم از کم وقت میں جو مہمات و فرائض انجام دینے تھے اور جو نشوونما کرنی تھی وہ نہ ہوسکی“۔
( روزنامہ المدینہ جدہ‘ شمارہ 31مارچ 1981ء، بحوالہ احکام تجارت اور لین دین کے مسائل۔ صفحہ 145,144)
تین مزید غیر سودی بینک:
1975ءہی میں دبئی کے ایک مشہور تاجر جناب احمد سعید لوتاہ نے اپنے کاروباری شرکاءکے ساتھ مل کر ”اسلای بینک آف دبئی“ کے قیام کا اعلان کردیا۔ اس کا ابتدائی سرمایہ 50 ملین درہم تھا جو ایک لاکھ کھاتوں میں تقسیم کیا گیا۔ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور کویت کے مسلمان سرمایہ داروں نے اس بینک کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ اور اب یہ بینک مختلف تجرباتی ادوار سے گزرکر اپنی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوچکا ہے۔
پھر 1977ءکے آغاز میں اسلامی بینکوں کے قیام کا فرض سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحوم کے بیٹے امیر محمدالفیصل نے سنبھال لیا، چنانچہ 1977ءمیں ان کی اور ان کے چند صحیح الفکر رفقاءکی مساعی حمیدہ سے ایک اسلامی بینک قاہرہ میں ”فیصل اسلامی بینک آف مصر“ کے نام سے، اور دوسرا اسلامی بینک خرطوم میں ”فیصل اسلامی بینک آف سوڈان“ کے نام سے جاری کردیا گیا۔
کویت کا اسلامی بینک:
1977ءہی کی بات ہے کہ کویت کے مسلمان تاجروں نے بھی اس میدان میں قدم رکھ دیا۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کویت مالدار ترین ملک ہے اور کویت ہو یا دوسرے خوشحال عرب ممالک ، سب کا بیشتر سرمایہ یورپی اور امریکی بینکوں کی طرف رخ کرتا ہے، اور یوں مسلمان سرمایہ سے یہودی اور عیسائی ادارے دنیا کے اندر سودی نظام کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ کویت کی اسلامی تحریک کی تگ و دو کے نتیجے میں کویت کے تاجروں کی معتدبہ تعداد نے مل کر اسلامی بینک کی بنیاد ڈال دی، اور اس کا نام ہے ”بیت التمویل الکویتی“ (کویت فنانس ہاوس)۔
آغاز میں اس بینک کا راس المال دس ملین کویتی دینار تھا۔ یہ بینک دوسرے اسلامی بینکوں کی طرح ہر نوعیت کے حسابات رکھتا ہے۔ جاری کھاتہ‘ بچت کھاتہ اور میعادی کھاتہ۔ تینوں کھاتوں میں اس نے بینکاری شروع کررکھی ہے۔ غرض یہ بینک ہر طرح کام کرتا ہے، مزید یہ کہ اس بینک نے فقہ اسلام کے نام سے ایک شعبہ کھول رکھا ہے اور اس کے اندر ایک نامور ازہری عالم دین کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جو بینک کو قدم قدم پر شرعی اصولوں کی روشنی میں مشورے دیتے ہیں اور کسی ایسے غلط کاروبار سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں شریعت کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
عمان کا اسلامی بینک:
اگلے ہی سال 1978ءمیں اسلامی بینک آف عمان کا قیام عمل میں آگیا، اور وہاں کے مسلمان بھی اس قافلے میں شامل ہوگئے۔ علماءاسلام کی ایک قابلِ قدر ٹیم اس کی قانونی اور شرعی پشت پناہی کررہی ہے۔