سید عمران
محفلین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ (رمضان کا)یہ مہینہ مواسات کا ہے۔مواسات کے معنی ہیں غم گساری کرنا، جان و مال سے کسی کی مدد کرنا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے میں مخلوقِ خدا کی مدد کرنے، ان کا بوجھ ہلکا کرنے اور ان سے غم گساری سے متعلق اتنی باتیں ارشاد فرمائیں، اتنی باتیں ارشاد فرمائیں، اتنی باتیں ارشاد فرمائیں جن کو کوئی حد نہیں۔
آپ نے فرمایا جو اس مہینے اپنے غلام و خادم کے کام میں کمی کرے گا اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اسے دوزخ سے آزادی دے گا۔ آپ نے فرمایا جس نے اس ماہ کسی روزہ دار کو افطار کرایا یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ سے آزادی کا سبب ہوگا، اس کو روزہ دار کے برابر ثواب بھی ملے گا چاہے ایک گھونٹ پانی ہی پلادے، چاہے ایک کھجور ہی کھلادے۔اور جس نے پیٹ بھر کر کھلادیا اس کے اجر کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا اس کو اﷲ تعالیٰ میرے حوض سے پانی پلائے گا جسے پینے کے بعد کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
اس حدیث پاک میں مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اس ماہ مبارک کو مسلمانوں کے ساتھ مواسات میں گزاریں۔ کسی غریب کا روزہ افطار کرانا اور اچھی غذا سے بھرپور ضیافت کرنا بڑی نیکی ہی نہیں غربا پروری اور غم گساری کی اعلیٰ مثال بھی ہے۔ مواسات کا تقاضا ہے کہ غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے ان کی کفالت کی جائے اور ان کے چہروں سے اداسی دور کی جائے۔
محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء رمضان کے مہینے میں مختصر سی سحری و افطار کھاتے، باقی تقسیم کرا دیتے ۔ ایک مرتبہ خادم نے عرض کیا آپ نے افطاری میں بھی کچھ نہیں کھایا ، اب سحری میں بھی کچھ نہیں کھا رہے، ایسے کیسے کام چلے گا؟آپ نے فرمایا خانقاہ اور مسجد میں کتنے لوگ بھوکے سوتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جنہیں کئی دنوں سے پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوا ، پھر میں کیسے پیٹ بھرلوں۔ یہ کہہ کر اتنا روئے، اتنا روئے کہ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔صوفیوں نے اپنے عمل کے ذریعے بتادیا کہ اچھے مؤمن کی نشانی ،کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا ہے ۔
روزے کی حالت میں بھوک پیاس پر صبر سے بھوکے پیاسے انسان کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور اخوت اور غم گساری کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ کپڑا نہ ہونے پر صبر آ جاتا ہے لیکن روٹی نہ ملنے پر صبر نہیں ہوتا۔جب انسان کو جائز طریقے سے روٹی نہیں ملتی تو وہ ناجائز پر اتر آتا ہے اور حیوانیت کا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ پھر معاشرے میں انسان کی شکل میں شیطانوں کی جماعت نظر آتی ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی خبر گیری رکھیے تاکہ وہ انسانیت کا جامہ چاک کرکے برے راستے پر نہ چل نکلیں۔
اس سلسلے میں اپنے پاس پڑوس، رشتے داروں اور دوست احباب کی خبر لے لیں، جو مستحقِ زکوٰۃ ہو اسے باعزت طریقے سے زکوٰۃ دیں۔ عام طور سے باوقار اور شریف لوگ شرم کے مارے خود نہیں مانگتے حالاں کہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ ان کو اس لیے نظر انداز کرنا کہ وہ دروازے پر مانگنے نہیں آتے کسی طرح درست نہیں بلکہ خود ان کے دروازے پر جاکر انہیں خدا کی دی ہوئی دولت میں حصہ دیں۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ زکوٰۃ ہی کی رقم استعمال کی جائے کیوں کہ ہر کسی پر رمضان ہی میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی، کسی پر جس مہینے بھی زکوٰۃ فرض ہو اسی وقت ادا کرنی چاہیے، بلاوجہ تاخیر کرکے گناہ گار نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم اگر کسی میں اتنا حوصلہ و استطاعت نہ ہو تو کم از کم زکوٰۃ اور فطرے ہی سے مدد کردے۔
عموماً لوگ افطار کی دعوت بھی مال داروں کو دیتے ہیں اور غریب و محتاج افراد کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جب کہ یہ زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی افطاری و سحری اور کھانے کا اہتمام کیا جائے تا کہ ان کے دل سے جو دعائیں نکلیں وہ گناہوں کا کفارہ بن جائیں۔
غم گساری کے اس مہینے میں صدقہ، خیرات، مسکین کو کھلانا کھلانا، یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا ، بیواؤں کی حاجت روائی کرنا ، ننگے بدن کو کپڑا پہنانا اور بیماروں کی دوا کی فکر کرنا اپنا مشغلہ بنالیں اور دوسروں کے غموں کو خوشیوں سے بدلنے کا سبب بن جائیں۔ کسی غمزدہ کو خوش کرنا ایسی خوشی ہے جو آپ کو ساری کائنات میں کہیں نہیں مل سکتی۔سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے جو مرتبہ ملا ہے وہ محض عبادت سے نہیں ملا بلکہ خدمتِ خلق سے ملا، غم گساری سے ملا۔
اس مہینے مخلوق کا غم کھانے کی تربیت حاصل کرلیں ۔ سارا سال اس پر عمل آسان ہوجائے گا۔
آپ نے فرمایا جو اس مہینے اپنے غلام و خادم کے کام میں کمی کرے گا اﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اسے دوزخ سے آزادی دے گا۔ آپ نے فرمایا جس نے اس ماہ کسی روزہ دار کو افطار کرایا یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ سے آزادی کا سبب ہوگا، اس کو روزہ دار کے برابر ثواب بھی ملے گا چاہے ایک گھونٹ پانی ہی پلادے، چاہے ایک کھجور ہی کھلادے۔اور جس نے پیٹ بھر کر کھلادیا اس کے اجر کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا اس کو اﷲ تعالیٰ میرے حوض سے پانی پلائے گا جسے پینے کے بعد کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
اس حدیث پاک میں مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اس ماہ مبارک کو مسلمانوں کے ساتھ مواسات میں گزاریں۔ کسی غریب کا روزہ افطار کرانا اور اچھی غذا سے بھرپور ضیافت کرنا بڑی نیکی ہی نہیں غربا پروری اور غم گساری کی اعلیٰ مثال بھی ہے۔ مواسات کا تقاضا ہے کہ غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے ان کی کفالت کی جائے اور ان کے چہروں سے اداسی دور کی جائے۔
محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء رمضان کے مہینے میں مختصر سی سحری و افطار کھاتے، باقی تقسیم کرا دیتے ۔ ایک مرتبہ خادم نے عرض کیا آپ نے افطاری میں بھی کچھ نہیں کھایا ، اب سحری میں بھی کچھ نہیں کھا رہے، ایسے کیسے کام چلے گا؟آپ نے فرمایا خانقاہ اور مسجد میں کتنے لوگ بھوکے سوتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جنہیں کئی دنوں سے پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوا ، پھر میں کیسے پیٹ بھرلوں۔ یہ کہہ کر اتنا روئے، اتنا روئے کہ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔صوفیوں نے اپنے عمل کے ذریعے بتادیا کہ اچھے مؤمن کی نشانی ،کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا ہے ۔
روزے کی حالت میں بھوک پیاس پر صبر سے بھوکے پیاسے انسان کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور اخوت اور غم گساری کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ کپڑا نہ ہونے پر صبر آ جاتا ہے لیکن روٹی نہ ملنے پر صبر نہیں ہوتا۔جب انسان کو جائز طریقے سے روٹی نہیں ملتی تو وہ ناجائز پر اتر آتا ہے اور حیوانیت کا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ پھر معاشرے میں انسان کی شکل میں شیطانوں کی جماعت نظر آتی ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی خبر گیری رکھیے تاکہ وہ انسانیت کا جامہ چاک کرکے برے راستے پر نہ چل نکلیں۔
اس سلسلے میں اپنے پاس پڑوس، رشتے داروں اور دوست احباب کی خبر لے لیں، جو مستحقِ زکوٰۃ ہو اسے باعزت طریقے سے زکوٰۃ دیں۔ عام طور سے باوقار اور شریف لوگ شرم کے مارے خود نہیں مانگتے حالاں کہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ ان کو اس لیے نظر انداز کرنا کہ وہ دروازے پر مانگنے نہیں آتے کسی طرح درست نہیں بلکہ خود ان کے دروازے پر جاکر انہیں خدا کی دی ہوئی دولت میں حصہ دیں۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ زکوٰۃ ہی کی رقم استعمال کی جائے کیوں کہ ہر کسی پر رمضان ہی میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی، کسی پر جس مہینے بھی زکوٰۃ فرض ہو اسی وقت ادا کرنی چاہیے، بلاوجہ تاخیر کرکے گناہ گار نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم اگر کسی میں اتنا حوصلہ و استطاعت نہ ہو تو کم از کم زکوٰۃ اور فطرے ہی سے مدد کردے۔
عموماً لوگ افطار کی دعوت بھی مال داروں کو دیتے ہیں اور غریب و محتاج افراد کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جب کہ یہ زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی افطاری و سحری اور کھانے کا اہتمام کیا جائے تا کہ ان کے دل سے جو دعائیں نکلیں وہ گناہوں کا کفارہ بن جائیں۔
غم گساری کے اس مہینے میں صدقہ، خیرات، مسکین کو کھلانا کھلانا، یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا ، بیواؤں کی حاجت روائی کرنا ، ننگے بدن کو کپڑا پہنانا اور بیماروں کی دوا کی فکر کرنا اپنا مشغلہ بنالیں اور دوسروں کے غموں کو خوشیوں سے بدلنے کا سبب بن جائیں۔ کسی غمزدہ کو خوش کرنا ایسی خوشی ہے جو آپ کو ساری کائنات میں کہیں نہیں مل سکتی۔سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے جو مرتبہ ملا ہے وہ محض عبادت سے نہیں ملا بلکہ خدمتِ خلق سے ملا، غم گساری سے ملا۔
اس مہینے مخلوق کا غم کھانے کی تربیت حاصل کرلیں ۔ سارا سال اس پر عمل آسان ہوجائے گا۔