صبا اکبر آبادی غم میں یکساں بسر نہیں ہوتی۔صبا اکبر آبادی

غم میں یکساں بسر نہیں ہوتی
شب کوئی بے سحر نہیں ہوتی
فرق ہے شمع و جلوہ میں ورنہ
روشنی کس کے گھر نہیں ہوتی
یا مرا ظرفِ کیف بڑھ جاتا
یا شراب اِس قدر نہیں ہوتی
بات کیا ہے کہ بات بھی ہم سے
آپ کو دیکھ کر نہیں ہوتی
قدر کر بیقرارئی دل کی
یہ تڑپ عمر بھی نہیں ہوتی
اور گھر میں دھواں سا گھُٹتا ہے
دل جلا کر سحر نہیں ہوتی
بے ہُنر ہو صباؔ تمھیں ورنہ
کیسے قدرِ ہنر نہیں ہوتی

صبا اکبر آبادی
 
Top