ناز خیالوی "غموں کے راز لوگوں پر عیاں ہونے نہیں دیتے" نازؔ خیالوی

غموں کے راز لوگوں پر عیاں ہونے نہیں دیتے
ہم اپنے دشمنوں کا بھی زیاں ہونے نہیں دیتے

نمو کی قوتیں صدمات میں دم توڑ دیتی ہیں
غم و آلام بچوں کو جواں ہونے نہیں دیتے

کڑے پہرے رواجوں کے ہیں الفت کی صداؤں پر
یہ کافر دل کے کعبے میں اذاں ہونے نہیں دیتے

ہم ان کو احتیاطاََ اُلجھنوں سے دور رکھتے ہیں
وہ ہم کو انتقاماََ شادماں ہونے نہیں دیتے

گلِ زخمِ تمنا کچھ بھی ہو تو مطمئن رہنا
تجھے ہم لوگ بربادِ خزاں ہونے نہیں دیتے

رواں ہیں آنسوؤں کی آبدوزیں باوجود اس کے
ہم آنکھوں پر سمندر کا گماں ہونے نہیں دیتے

تعلق کچھ نہ کچھ گھر سے بھی رکھتے ہیں مسافت میں
مسافر نازؔ خود کو بے اماں ہونے نہیں دیتے
نازؔ خیالوی​
 
آخری تدوین:
غموں کے راز لوگوں پر عیاں ہونے نہیں دیتے
ہم اپنے دشمنوں کا بھی زیاں ہونے نہیں دیتے

ہم ان کو احتیاطاََ اُلجھنوں سے دور رکھتے ہیں
وہ ہم کو انتقاماََ شادماں ہونے نہیں دیتے
کیا بات ہے فرحان بھائی، بہت اچھا انتخاب ہے۔
 
Top