غموں کی بھیڑ میں اپنا تو کچھ پتا رکھتا

میاں وقاص

محفلین
غموں کی بھیڑ میں اپنا تو کچھ پتا رکھتا
چراغ_ہست کو تھوڑا پس_ہوا رکھتا

کسی کے عشق میں گروی ہی رکھ دیا سب کچھ
"میں عمر اپنے لئے بھی تو کچھ بچا رکھتا "

اسی کی ذات پہ الزام_بے وفائی کیوں؟
میں اپنی ذات کی خاطر بھی کچھ سزا رکھتا

کبھی حضور مری جھونپڑی کا رخ کرتے
تمھاری راہ میں آنکھیں بچھا بچھا رکھتا

میں اپنی ذات میں محصور کب تلک رہتا
کوئی تو بند گلی میں بھی راستہ رکھتا

مجھے بھی خیر سے مقتل کی یاد آ جاتی
تو اپنے ہاتھ پہ رنگ_حنا چڑھا رکھتا

بھلے کوئی بھی نہ سنتا کنار_دریا پر
میں اپنے طور پہ کچھ شور تو بپا رکھتا

غم_فراق سے دل میں جو اک بھڑک اٹھتی
تیرے خطوط کو میں آنکھ سے لگا رکھتا

زمین ہو کے نہ گر آسمان کو تکتا
تو اپنی ذات کے اندر نہ یوں خلا رکھتا

ہر ایک موڑ پہ خوف و ہراس پھیلا ہے
ذرا سا دامن_امید تو کھلا رکھتا

ترا وجود ہی منزل میں جب سمجھ بیٹھا
ترا خیال ہی جیون میں نقش_پا رکھتا

ترے حضور نہ شاہین التجا کرتا
اگر امان میں اے نا خدا! خدا رکھتا

حافظ اقبال شاہین
 
Top