غمزہ وہ برسرِ بے داد آیا ۔ بہادر شاہ ظفر

فرخ منظور

لائبریرین
غمزہ وہ برسرِ بے داد آیا
مژدہ اے مرگ کہ جلّاد آیا

دہنِ تنگ جو یاد آیا مجھے
تنگ کیا کیا دلِ ناشاد آیا

عشق میں تیشۂ آخر کے سوا
کچھ ترے کام نہ فرہاد آیا

بلبلو دیکھو چمن میں اتنا
نہ کرو شور کہ صّیاد آیا

بول اٹھا دیکھ کے مجنوں مجھ کو
یہ تو کوئی مرا استاد آیا

اُڑ گئے ہوش مرے ناصح کے
سامنے جب وہ پری زاد آیا

جو لکھا تھا مری پیشانی میں
سو وہ پیش اے دلِ ناشاد آیا

نہ تُو آیا مری سن کر فریاد
دم لبوں پر دمِ فریاد آیا

دیکھ کر اُس بتِ کافر کے ستم
اے ظفرؔ مجھ کو خدا یاد آیا

(بہادر شاہ ظفرؔ)​
 
Top