غزل

قمر

محفلین
اے میری رات کی سحر کے ستارے
کب مٹیں گے یہ فاصلے ہمارے تمھارے
کبھی آ اپنے سوختہ دل کی دلداری کے لیے
مٹ جائیں درد، مندمل ہو جائیں زخم سارے
بچھڑا تو رگ رگ میں کانٹے چھبو گیا وہ
پھولوں سے دی تھیں تشبیہں اور استعارے
راہِ محبت کے پر جوش مسا فر سن
یہاں کھو جاتی ہے منزل اور ملتے نہیں کنارے
قمر آؤ ذکرِ یار سے اک شام معطر کریں
کیسے ملے،کیسے بچھڑے،کیسے جیتے،کیسے ہارے
 
Top