غزل

تمہیں پاکے ہم نے کھویا،کہ پھر کھو کر نہ پائے
ہم اعتبار کرکے روئے ،کہاعتبار پھر کر نہ پائے
جمی دوستوں کی محفل،رہے پھر بھی اجنبی ہم
رہے ایسے تنہا تنہا،کہ خودکوتنہا کر نہ پائے
تھا مقابلہ وفا کا،شامل سبھی تھے میرے اپنے
ہوئے اعتبار کے ایسے قابل،کہ بھروسہ کر نہ پائے
رگِ جاں سے قریب جو تھے ،زمانہ اب ان کو دیکھے
ملے پھیر کر ایسی نظریں،کہ ہم بات کر نہ پائے
لیا امتحاں ہماراَ کیا زمانے بھر میں رسوا
وہ معتبر ایسے ٹہرے ، کہ ہم اعتبار کر نہ پائے
تو معموں میں ایک ایسا،منزہ معمہ ہے کچھ ایسا
جو جان جائے تجھ کو ،وہ بھی حل کر نہ پائے
 
Top