غزل

نافرع

محفلین
اک کوشش کی ہے۔آپ لوگوں سے اصلاح کی درخواست ہے۔


لاکھ ویرانی سہی پروہ مکیں رہتا ہے
آج بھی دل میں مرے وہ مہ جبہں رہتا ہے

رہتا ہے آسماں پرآخری تارہ جب تک
لوٹ آنے کا ترے" دل کو یقیں رہتا ہے"

وقت جیسے ہو صبا ٹھہرتو جائے لیکن
دسترس میں کسی کی کب یہ کہیں رہتا ہے

چھیڑ دوں اس پری رو کا کبھی قصہ کوئی
میرا لکھا ہوا پھر میرا نہیں رہتا ہے

فرق آیا ہے تو اتنا نہیں ملتے ہیں اب
ورنہ ہم بھی ہیں یہیں وہ بھی یہیں رہتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ کافی بہتری آ رہی ہے۔ کچھ ہی عروضی اغلاط ہیں، زیادہ نہیں۔
مہ جبیں وزن میں نہیں آتا، ہ حذف کرنا جائز نہیں جب کہ وہ اعلان کے ساتھ آئے۔ محض ’نہ‘ اور ’کہ‘ میں جائز ہے۔ اس کو یوں کر دو۔
آج بھی دل میں وہی ماہ جبیں رہتا ہے

رہتا ہے آسماں پرآخری تارہ جب تک
رہتا اور آسماں میں کئی حروف کا گرنا پسندیدہ نہیں۔ اس کو بدلا جا سکتا ہے جیسے۔۔۔ اور بہتر صورتیں بھی ممکن ہیں۔
جب تلک آخری تارہ سرِ افلاک رہے

دسترس میں کسی کی کب یہ کہیں رہتا ہے
میں بھی ’کسی کی‘ بر وزن ’فَعِلا‘ اچھا نہیں لگ رہا۔لیکن کوئی متبادل مصرع ابھی نہیں سوجھ رہا۔
مجموعی طور پر اچھی غزل ہے، پسند آئی۔
 
Top