عرفان صدیقی غزل ۔ کوئلیں پھر بھولےبسرے غم جگانے آگئیں - عرفان صدیقی

محمداحمد

لائبریرین
غزل

کوئلیں پھر بھولےبسرے غم جگانے آگئیں
گرمیاں لے کر اُداسی کے خزانے آگئیں

ٹھنڈے دالانوں میں پھر کھلنے لگی دل کی کتاب
جلتی دوپہریں مرا پردا گرانے آگئیں

ڈھگ گئیں پھر صندلیں شاخیں سنہری بُور سے
لڑکیاں دھانی دوپٹے سر پہ تانے آگئیں

پھر دھنک کے رنگ بازاروں میں لہرانے لگے
تتلیاں معصوم بچوں کو رجھانے آگئیں

کھل رہے ہوں گے چھتوں پر سانولی شاموں کے بال
کتنی یادیں ہم کو گھر واپس بلانے آگئیں

دھول سے کب تک کوئی شفاف جذبوں کو بچائے
خواہشوں کی آندھیاں پھر خاک اُڑانے آگئیں
عرفان صدیقی
 
Top