محسن نقوی غزل ۔ قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ ۔ محسن نقوی

محمداحمد

لائبریرین
غزل
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ
رزق، ملبوس ، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ
دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ
محسن نقوی

میں نے یہ غزل محفل میں کافی ڈھونڈی مجھے ملی نہیں (حیرت بھی ہے کہ یہ مشہور غزل تو یہاں ہونی چاہیے)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محسن نقوی کی ایک بیحد خوبصورت غزل۔
مطلع تا مقطع غزل نے اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔
کتاب کا نام پتہ نہیں کیا تھا یاد نہیں آ رہا۔

آپ کی غزل نے مجھے اسی زمین میں فراز والی غزل بھی یاد دلا دی، جس کا مطلع تھا

پیچ رکھتے ہو بہت صاحبو دستار کے بیچ
ہم نے سر گرتے ہوئے دیکھے ہیں بازار کے بیچ
 

محمداحمد

لائبریرین
جناب محمداحمد صاحب!
بہت خوبصورت غزل ہے، شیئر کرنے کے لئے شکریہ!
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اسے ذرا دیکھ لیں، یہ مکاںہونا چاہئے۔۔۔

نشاندہی کا بہت شکریہ جناب۔۔۔۔!

یوں تو یہ ٹائپو (تحریر کی غلطی) ہے لیکن سرخی ء مکاں دیکھ کر "اصلاحِ سخن" کے ذمرے کا گمان ہوتا ہے۔ :)
 
Top