غزل ۔ عرصہء خواب میں رہا جائے

شاہین فصیح ربانی​

غزل

عرصہء خواب میں رہا جائے
نام تعبیر کا دیا جائے

اس طرف بے سبب چلا جائے
جس طرف دشت کی ہوا جائے

اس یقیں سے سفر کیا جائے
آپ منزل قریب آ جائے

گھر سے مایوس کیوں ہوا جائے
سامنے ہی دیا رکھا جائے

اک جہاں درمیان حائل ہے
کیسے اس تک مری صدا جائے

وہ مری داستاں سنے نہ سنے
اپنا قصہ مجھے سنا جائے

دوسروں کو بدل نہیں سکتے
آپ ہی کو بدل لیا جائے

ہر طرف غم کی تیرگی ہے فصیح
کس طرف دل کا قافلہ جائے
 

الف عین

لائبریرین
سہل ممتنع میں اچھی غزل ہے فصیح، لیکن یہ کون سا فانٹ استعمال کر رہے ہیں۔ ڈفالٹ فانٹ ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔
 
سہل ممتنع میں اچھی غزل ہے فصیح، لیکن یہ کون سا فانٹ استعمال کر رہے ہیں۔ ڈفالٹ فانٹ ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔
آپ کی اس گرانقدر رائے کیلیے بہت شکرگزار ہوں،
میرا خیال ہے کہ یہ غزل پرانے سسٹم سے یہاں منتقل کی تھی، اس لیے اس کا فانٹ پہلے والا ہے اور شاید میں نے بدلنے کے کوشش بھی کی تھی لیکن ناکام رہا۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
اک جہاں درمیان حائل ہے
کیسے اس تک مری صدا جائے


بہت خوب جناب ۔۔۔۔
داد قبول کیجیئے گا۔
 

مغزل

محفلین
فصیح بھائی داخلی واردات پر مبنی غزل ہے زبان و بیان شائستہ ، مصرعوں پر گرفت مضبوط ہے ۔
ابتدائی اشعار کی ذیل میں مطلع در مطلع ہی کہے جاتے تو صنعت کا حسن بھی در آتا مجھ خاکسار کی جانب سے ہدیہ تبریک، گر قبول افتد
 
فصیح بھائی داخلی واردات پر مبنی غزل ہے زبان و بیان شائستہ ، مصرعوں پر گرفت مضبوط ہے ۔
ابتدائی اشعار کی ذیل میں مطلع در مطلع ہی کہے جاتے تو صنعت کا حسن بھی در آتا مجھ خاکسار کی جانب سے ہدیہ تبریک، گر قبول افتد

محمود بھائی
غزل کے بارے آپ کی اس گرانقدر رائے کے لیے سراپا سپاس ہوں۔
مطلع در مطلع کہنے کی ذرا سی کوشش تو کی تھی لیکن ناکام رہا۔
آپ کا بہت شکریہ، ہمیشہ خوش و خرم رہیے۔
 
Top