جمال احسانی غزل ۔ بکھر گیا ہے جو موتی پرونے والا تھا ۔ جمال احسانی

محمداحمد

لائبریرین
غزل
بکھر گیا ہے جو موتی پرونے والا تھا
وہ ہو رہا ہے یہاں جو نہ ہونے والا تھا
اور اب یہ چاہتا ہوں کوئی غم بٹائے میرا
میں اپنی مٹّی کبھی آپ ڈھونے والا تھا
ترے نہ آنے سے دل بھی نہیں دُکھا شاید
وگرنہ کیا میں سرِ شام سونے والا تھا
ملا نہ تھا پہ بچھڑنے کا رنج تھا مجھ کو
جلا نہیں تھا مگر راکھ ہونے والا تھا
ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں
پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا
جمال احسانی
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ احمد صاحب خوبصورت غزل ارسال فرمانے کیلیے
خوب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔

انتخاب کی پسندیدگی کا بہت شکریہ ۔۔۔ ۔!​
 

محمداحمد

لائبریرین
ملا نہ تھا پہ بچھڑنے کا رنج تھا مجھ کو
جلا نہیں تھا مگر راکھ ہونے والا تھا


واہ ۔۔۔۔!


کبھی کبھی تو اپنے حسنِ انتخاب پر بھی داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ :p
 
Top