غزل ۔ برسوں ہوئے آنکھوں نے گل تر نہیں دیکھا ۔ صلاح الدین نیر

عندلیب

محفلین
غزل

برسوں ہوئے آنکھوں نے گل تر نہیں دیکھا
ہم ایسے گئے گھرسےکہ پھر گھر نہیں دیکھا

لکھ ڈالی ہے جس نے نئی تاریخ شہادت
کتنا ہے بلند آپ نے وہ سر نہیں دیکھا

اِک ہاتھ میں تسبیح تھی اِک ہاتھ میں تلوار
اُس دن سے کسی نے اُسے گھر پر نہیں دیکھا

تپتے ہوئے صحرا میں گزاریں کئی راتیں
تھا ایسا مجاہد کبھی بستر نہیں دیکھا

شاہین نہی رہتا کبھی ایک جگہ پر
شاہین کو ہم نے کسی گھر پر نہیں دیکھا

جب ختم ہوا رشتہ غلاموں کی زمیں سے
خودار تھا اتنا کبھی مڑ کر نہیں دیکھا

گزرے ہوئے کچھ لمحے قریب آئے تھے نیر
افسوس کہ ہم نے انھیں پھر کر نہیں دیکھا
 
Top