شکیل بدایونی غزل-ہر گوشہء نظر میں سمائے ہوئے ہو تم-شکیل بدایونی

غزل

ہر گوشہء نظر میں سمائے ہوئے ہو تم
جیسے کہ میرے سامنے آئے ہوئے ہو تم

میری نگاہِ شوق پہ چھائے ہوئے ہو تم
جلووں کو خود حجاب بنائے ہوئے ہو تم

کیوں اک طرف نگاہ جمائے ہوئے ہو تم
کیا راز ہے جو مجھ سے چھپائے ہوئے ہو تم

دل نے تمہارے حسن کو بخشی ہیں رفعتیں
دل کو مگر نظر سے گرائے ہوئے ہو تم

یہ جو نیاز عشق کا احساس ہے تمہیں
شاید کسی کے ناز اٹھائے ہوئے ہو تم

یا مہربانیوں ہی کے قابل نہیں ہوں میں
یا واقعی کسی کے سکھائے ہوئے ہو تم

اب امتیاز پردہ و جلوہ نہیں مجھے
چہرے سے کیوں نقاب اٹھائے ہوئے ہو تم

اُف رے ستم شکیل یہ حالت تو ہو گئ
اب بھی کرم کی آس لگائے ہوئے ہو تم

شکیل بدایونی​
 
یہ جو نیاز عشق کا احساس ہے تمہیں
شاید کسی کے ناز اٹھائے ہوئے ہو تم

حضور بات یہ ہے کہ کلیات میں ایسے ہی " یہ جو نیازِ عشق احساس ہے تمہیں" لکھا گیا ہے ۔
"یہ جو نیاز عشق کا احساس ہے تمہیں"
مجھے بھی بھی لگا تھا کہ کہیں کوئی ایسا ہی حرفِ جار رہ گیا ہے ۔ اب آپ کی نشاندہی پر دوبارہ غور کیا مگر نتیجہ وہی ہے ۔ اگر اس کا سے شعر کا وزن خراب نہیں ہوتا تو ہم اس کا اضافہ کر دیتے ہیں ۔
 
Top