غزل کی تہذیب کا شاعر ۔ نصیر ترابی

غزل کی تہذیب کا شاعر ۔ نصیر ترابی

جمال پانی پتی

عورت کی طرح شاعری کا پتا بھی چھونے سے چلتا ہے۔ اب یہ بات الگ ہے کہ بعض خوش عقیدہ لوگ براہ راست تجربے کی بجائے مشاطاؤں اور نقادوں کے کہنے پر ایمان لے آئیں۔ مگر ایسے لوگوں پر نہ تو عورت ہی اپنا آپ کھولتی ہے نہ شاعری۔ پتا نہیں اپنے پہلے شعری مجموعے ’’عکس فریادی‘‘ کی پیش کش کے وقت نصیرترابی کے پیش نظر سلیم احمد کا یہ قول تھا یا نہیں۔ مگر اس نے جس طرح مشاطاؤں کو... معاف کیجیے نقادوں کو ’’عکس فریادی‘‘ کے اطراف و جوانب سے بارہ پتھر باہر رکھا، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف اسے اپنے لکھے ہوئے لفظ پر پورا اعتماد ہے تو دوسری طرف وہ اپنے پڑھنے والوں کے شعری ذوق کو بھی غیرمعتبر نہیں سمجھتا۔ آج کل کے مقدمہ نویسوں، فلیپ نگاروں اور تقریباتی نقادوں کے ہاتھوں ادب و شعر اور اس کے وقار و اعتبار کی لٹیا بیچ بازار ڈوبتے دیکھ کر نصیر ترابی کا ان حضرات سے بدک جانا ناموس شعر کی نگہ داری اور حفاظت کے حوالے سے یقیناًاُس کی معاملہ فہمی کی دلیل بھی ہے اور اپنے لکھے ہوئے لفظ پر اس کے بھرپور اعتماد کا اظہار بھی۔ اپنے لکھے ہوئے لفظ پر نصیر کے اعتماد کا پتا اس بات سے بھی چلتا ہے کہ مقدمہ نویس اور فلیپ نگار تو رہے الگ، اُس نے تو اپنے بتیس سالہ شعری کاوشوں کے سرمائے کو اپنے پڑھنے والوں کے سامنے کتابی صورت میں پیش کرتے وقت خود اپنے آپ کو بھی بیچ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ حالاں کہ نثر کے میدان میں بھی وہ کسی سے ہیٹا ہرگز نہیں۔ اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اُس کی تو نثر بھی اپنی سج دھج، خوب صورتی اور دل آویزی کے اعتبار سے ایسی ہے کہ اس پر سچ مچ شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اگر اس نے اپنی شاعری کے بارے میں اپنی طرف سے اپنی نثر میں بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھی تو یہ اپنی شعری کاوشوں کے حوالے سے خوداعتمادی کا ایک ایسا نایاب وصف ہے جس کا فقدان فی زمانہ بڑے بڑوں کا بھرم کھول دینے کے لیے کافی ہے۔
میں اس بات کو مزید آگے بڑھانا تو نہیں چاہتا مگر اس سلسلے میں ایک بات یہ کہے بغیر بھی چارہ نہیں کہ ’’عکس فریادی‘‘ نصیرترابی کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور اپنے پہلے شعری مجموعے پر کسی نقاد سے فلیپ یا پیش لفظ لکھوانا میرے نزدیک ہر جینوئن شاعر کا ایک ایسا جائز اور فطری حق ہے جس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ لیکن ادبی اصولوں اور تہذیبی قدروں کی بے آبروئی کے اس دور میں نصیر کا اپنے اس جائز اور فطری حق کو استعمال نہ کرنا بھی صاحبان نقد ونظر کے لیے ایک ایسا لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے جو اُس کی شخصیت اور فن کی صحیح تفہیم کے حوالے سے اپنے اندر چند در چند معنی خیز مضمرات کاحامل ہے۔ اور پھر اپنے مجموعۂ کلام کو فلیپ اور پیش لفظ جیسی سفارشی چٹھیوں کے بغیر منظرعام پر لانے سے قبل بھی نصیر کا اپنے آپ کو ادبی رسائل و جرائد سے، مشاعروں اور مشاعرہ بازوں سے، آرٹس کونسلوں، نیشنل سینٹروں اور پنج ستارہ ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی نام نہاد ادبی تقریبات سے دُور رکھنا بھی دراصل اُس کے مزاج کی اسی خصوصیت کو ظاہر کرتا ہے جو ناموس شعر کی قیمت پر کوچۂ شہرت کی دریوزہ گری کو اپنے لیے کبھی روا نہیں رکھ سکتی۔ نصیر کے مزاج کی اس خصوصیت کو نظر میں رکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عزیز حامد مدنی کے بعد ہمارے ہاں غالباً نصیرترابی ہی وہ واحد شاعر ہے جس نے بہت اچھی پی آر کا آدمی ہونے کے باوجود شہرت کے لیے استعمال ہونے والے تمام مروّجہ ذرائع اورطریقوں سے دُور رہ کر نہ صرف یہ کہ خود کو ارزاں نہیں ہونے دیا بلکہ اپنی غزل کی تہذیبی سطح اور معیار کو بھی گرنے سے بچائے رکھا۔
اپنی بتیس سالہ تخلیقی زندگی کا حاصل صرف ایک شعری مجموعے کی صورت میں پیش کرنا ویسے
تو نصیر کی کم گوئی اور کم سخنی ہی پر محمول کیا جائے گا لیکن اس کم سخنی اور کم گوئی کا صلہ اسے ایک ایسے
خوب صورت اور سراپا انتخاب مجموعے کی صورت میں ملا ہے جو اپنی غزلوں کے رنگ و آہنگ، آن بان اور سج دھج کے اعتبار سے جدید اردو غزل میں اپنی مثال آپ ہے۔ اور چاہے کوئی اس بات سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن میرا خیال یہی ہے کہ ناصرکاظمی اور مدنی کے بعد ایسی دل کھینچ، تازہ کار اور سراپا انتخاب غزل گنتی کے چند ایک غزل گو شعرا کو چھوڑ کر دوسروں کے ہاں مشکل ہی سے ملے گی۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں نصیر کو گنتی کے ان چند ایک شعرا کے سوا باقی تمام غزل گو شعرا سے بڑھائے دے رہا ہوں۔ یقیناًان میں بعض شاعر کسی نہ کسی اعتبار سے نصیر سے اچھے بھی ہیں مگر غزل کا جو مخصوص تہذیبی مزاج اور لب و لہجے کی جو تہذیبی سطح ہمیں نصیر کے ہاں ملتی ہے وہ دوسروں کے ہاں کم یاب ہے۔ اس لیے کہ دوسروں کے ہاں اچھی سے اچھی غزل میں بھی بعض اوقات ایسے شعر آ جاتے ہیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے خواہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں مگر غزلیہ شاعری کے آہنگ اور غزل کے اس تہذیبی مزاج سے لگا نہیں کھاتے جس کی تربیت ہمیں اردو غزل کی تین سو سالہ روایات کے اندر رہ کر حاصل ہوئی ہے۔
نصیر کی خوش قسمتی سے اسے یہ تربیت اپنے ہی گھر کے علمی اور ادبی ماحول میں میسر آگئی۔ اس کے والد گرامی علامہ رشید ترابی ایک جید عالم دین اور بے مثال خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ’’شاخ مرجاں‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ کتابی صورت میں شائع شدہ موجود ہے۔ ان کے پاس اپنے وقت کے تمام بڑے شعرا کی آمد و رفت تھی، اور گھر کے اندر اردو اورفارسی کے نامور اساتذہ اور ان کے اشعار پر، الفاظ کے در و بست اور شعر کے حسن و قبح پر، شعری لطافتوں اور نزاکتوں پر گفتگو رہتی تھی۔ نصیر کی ابتدائی شعری تربیت اپنے گھر کے اسی علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی اور اسی ماحول میں اسے غزلیہ شاعری کی روایت اور غزل کے تہذیبی اور لسانی مزاج سے شناسائی کے مواقع میسر آئے۔ بعدمیں یہ شناسائی بڑھتے بڑھتے گہری وابستگی میں تبدیل ہو کر اُس کے اپنے مزاج کا حصہ بن گئی۔ پھر یہ نکتہ بھی اُس نے اپنے والد گرامی ہی سے سیکھا کہ اچھی غزل کہنے کے لیے فارسی شاعری کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ چناں چہ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی شاعری کی روایت کو بھی اُس نے اپنے اندر جذب کرکے اس سے اپنے شعری مزاج اور ذوق کی تشکیل و تعمیر کا کام لیا۔ غرض یہ کہ نصیر کے ادبی اور شعری مزاج کی نشوونما ایک ایسے علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی جس کا تعلق غزل کے تہذیبی اور لسانی پس منظر سے ہنوز منقطع نہیں ہوا تھا۔ اس ماحول کی تربیت نے اسے غزل کی تہذیب کا اداشناس بنا کر یہ بات اس کے تخلیقی وجدان میں اُتار دی کہ غزل محض ایک صنف سخن ہی نہیں، ہمارے تہذیبی مزاج کی ترجمان بھی ہے بلکہ رشید احمد صدیقی کے الفاظ مستعار لے کر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے۔
غزل کی روایت، غزل کی تہذیب اور غزل کے تہذیبی مزاج کی باتیں ممکن ہے آج ہم میں سے بہت سوں کی سمجھ میں پوری طرح نہ آئیں۔ اس لیے کہ تہذیبی شکست و ریخت کے اس زمانے میں غزل کا رشتہ اس تہذیب اور تہذیبی اقدار کے اس نظام سے بس برائے نام ہی باقی رہ گیا ہے جس نے غزل کو پیدا کیا اور پروان چڑھایا تھا۔ یہ رشتہ ایک ایسے زمانے میں برقرار رہ بھی کہاں سکتا تھا جب خود وہ تہذیب ہی دم توڑ چکی ہو یا دم توڑ رہی ہو جس نے غزل کو پیدا کیا تھا۔ وہ تو یہ کہیے کہ غزل ہے ہی کچھ ایسی کٹر اور سخت جان صنف سخن کہ حالی اور عظمت اللّٰہخاں کے وقت سے لے کر آج تک ہر طرح کے سرد و گرم کو جھیلتی ہوئی اور ہر زمانے کے بدلتے ہوئے انداز و اطوار کو اپنے اندر سموتی ہوئی، اپنے آپ کو اور اپنی مخصوص انفرادیت کو برقرار رکھتی چلی آرہی ہے۔ اس کے باوجود ظفراقبال کے ’’ترمال تو لے اڑے لفنٹے‘‘سے لے کر سلیم احمد کے ’’لاکھ کودے کوئی ٹانگوں میں دبا کر موسل‘‘ تک آج کی غزل کے بعض رجحانات ایسے ہیں جنھیں دیکھ کر کوئی ایسا شخص بھی جو ہمارے معاشرے کی موجودہ صورت حال سے ناواقف ہو، باآسانی بتا سکتا ہے کہ یہ غزل ایک تہذیب سے عاری، بے روح اور بے کلچر معاشرے کی پیداوار ہے۔ خیر، اس قسم کے اشعار تو پھر بھی غزل کے طریقۂ راسخہ کے خلاف شعوری بغاوت کا نتیجہ ہیں لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ بعض شعرا اپنی غزل میں نیا پن پیدا کرنے کے لیے روایت سے انحراف کی جو راہیں اختیار کرتے ہیں ان کی حدیں بھی بالعموم بھونڈے پن اور بوالعجبی سے جا ملتی ہیں۔ اور بعض کے ہاں واقعیت نگاری پر اصرار سے غزل کے رمزی اور ایمائی تقاضوں کی نفی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح بعض شعرا غزل کی تہذیبی سطح اور معیار کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی غزل میں ایسے ہلکے پھلکے اور رومانیت زدہ الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ غزل میں فلمی گیت کا سا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسی غزلوں کو پڑھ کر تربیت یافتہ ذہن کے قاری کو دھکا سا لگتا ہے۔ نصیرترابی کی غزل کے سلسلے میں اس طرح کی چیزوں کا حوالہ بھی میرے نزدیک ایک ناخوش گوار بات ہے۔ مگر چوں کہ اس قسم کی چیزیں بھی ہمارے شعرا کے دواوین اور ادبی رسائل و جرائد میں بڑے اہتمام کے ساتھ چھاپی جاتی ہیں، اس لیے ذاتی طور پر ناگواری کے احساس کے باوجود مجھے یہاں ان کا ذکر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایسے حالات میں ناصرکاظمی اور عزیز حامد مدنی جیسے شعرا کا یہ کارنامہ میرے نزدیک ایک تہذیبی اور تخلیقی جہاد سے کسی طرح کم نہیں کہ انھوں نے غزل کے تہذیبی مزاج، رکھ رکھاؤ اور لب و لہجے کی شائستگی کو برقرار رکھتے ہوئے غزل بھی قدر اوّل کی کہہ کر دکھائی۔ ناصرکاظمی نے کم اور مدنی نے زیادہ۔ میرے نزدیک نصیرترابی کی غزل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ناصرکاظمی اور مدنی کی طرح نصیر کا اختصاص بھی یہی ہے کہ اس نے غزل کے تہذیبی مزاج اور معیار کو برقرار رکھتے ہوئے ایسی غزل کہنے میں کامیابی حاصل کی جو صوری اور معنوی ہر قسم کی ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں سے پاک، شروع سے لے کر آخر تک سراپا انتخاب اور ایک رچے ہوئے تہذیبی شعور و احساس کی دین ہے۔
ایک ایسے زمانے میں جب ہمارے شعرا بالعموم فارسی زبان اور شعر و ادب کی روایت سے بڑی حد تک دُور ہوچکے ہیں، نصیر کا فارسی میں شعر کہنا، رومی، حافظ، عرفی، نظیری اور غالب و اقبال جیسے فارسی شعرا کے اشعار اپنی کتاب کے فلیپ پر درج کرنا اور اپنے مجموعے کا نام بھی اپنے ہی فارسی کے ایک شعر سے نکالنا، یہ سب باتیں فارسی زبان اور شعر و ادب کی روایت سے اُس کے گہرے شغف کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اگر ہم اس بات کو بھی نظر میں رکھیں کہ اس کے مجموعے میں اپنی طبع زاد زمینوں اور مدنی اور فیض جیسے زمانۂ حال کے شعرا کی زمینوں میں کہی گئی چند غزلوں کے علاوہ اچھی خاصی تعداد ایسی غزلوں کی بھی ہے جو میر، سودا اور مومن سے لے کر شاد اور یگانہ تک اردو غزل کے مختلف اساتذۂ سخن کی زمینوں میں کہی گئی ہیں، تو اس سے بھی ہمیں اس بات کا پتا چلتا ہے کہ نصیر نے فارسی غزل کے ساتھ ساتھ اردو غزل کی کلاسیکی روایت سے بھی اپنا رشتہ برقرار رکھتے ہوئے، دونوں کے بہترین عناصر سے اکتساب فیض کرکے اپنی غزل کو پرمایہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اردو غزل کی تین سو سالہ روایت کے ساتھ اگر فارسی غزل کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ کوئی سات آٹھ سو سال کی روایت بن جاتی ہے۔ نصیر نے اس پوری روایت کو اپنی شخصیت میں جذب کرکے اس سے اپنی غزل کے آب و رنگ کو نکھارنے اور سنوارنے کا کام لیا ہے۔ اور یقیناًیہ اس کی کوئی مجبوری نہیں بلکہ اس کا انتخاب (choice) ہے۔ اس کا رویہ اس باب میں تقلیدی اور روایتی نہیں بلکہ خلاقانہ اور جدید ہے۔ اور یہ ایک ایسا رویہ ہے جس کے ذریعے اس نے اپنی آواز کو پالا اور اپنی انفرادیت کے خدوخال کو اُجالا ہے۔
ماضی کے اساتذۂ سخن سے اثر لینے کی توفیق آج کل ہمارے شعرا کو بالعموم کم ہی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اپنی شخصیت اور شاعری کی تشکیل و تعمیر میں ماضی کے اثرات کو شامل کرنا ان کے نزدیک کوئی پسندیدہ بات نہیں۔ دراصل انھیں یہ خوف لاحق رہتاہے کہ کہیں ان کی انفرادیت کا رنگ اُبھرنے سے پہلے ہی ان اثرات کے تلے دب کر نہ رہ جائے۔ اس لیے وہ بالعموم ماضی کے اثرات کو جذب کرنے کی بجائے ان سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ مگر یہ ان کی بڑی غلط فہمی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی انفرادیت جو اپنے ماضی کے اثرات کو جذب کرنے کی بجائے ان سے گریز کرکے پیدا کی جاتی ہے، جعلی انفرادیت ہے، جو ایک طرف اپنے ماضی اور اپنے سلسلۂ نسب سے منقطع ہوکر اور دوسری طرف اپنے ذاتی خیالات کی originality کے دھوکے میں دوسروں سے بالکل مختلف ہوکر اپنی انفرادیت کا علم بلند کرنے پر اصرار کرتی ہے۔ اس کے برعکس حقیقی انفرادیت وہ ہے جو اپنے سلسلۂ نسب اور اپنے ماضی سے منقطع ہوکر نہیں بلکہ ان کے اثرات کو زیادہ سے زیادہ جذب کرکے پیدا کی جاتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح بہت سے رنگوں کو ملا کر ایک نیا رنگ اور بہت سی چاشنیوں کو ملا کر ایک نیا قوام تیار کیا جاتا ہے۔ چناں چہ ایلیٹ نے بھی شاعری میں ماضی کے شعرا سے زیادہ سے زیادہ اثر لینے کو مستحسن قرار دیا ہے اور ان اثرات کو غیرمستحسن سمجھا ہے جنھیں صرف اپنے ہم عصروں یا اپنے سے فوراً پہلے کی نسل سے قبول کرنے پر ہی اکتفا کرلیا جائے، جیسے کہ ہمارے ہاں احمد فراز پر فیض کا اثر ہے۔
فارسی زبان و ادب سے نصیر کے گہرے شغف کی بہ دولت اس کے ہاں اردو غزل میں فارسیت کا ایک خوش گوار اور خوب صورت رنگ ایسا بھی شامل ہوگیا ہے جو کہیں اس کی ترکیب سازی اور پیکر تراشی میں اپنی جھلک دکھاتا ہے اور کہیں خوب صورت تشبیہوں اور استعاروں کی صورت میں ہمارے دامن دل کو کھینچتا ہے۔ اس کے پیرایۂ اظہار کی تازگی اور انداز بیاں کی شگفتگی بھی بہت کچھ اسی چیز کی مرہون منت ہے جس کی بہ دولت وہ اپنے جذبات و محسوسات کو خوش رنگ اور تازہ کار لفظی پیکروں اور تشبیہوں کا پیرہن عطا کرکے انھیں کچھ اس سج دھج کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ ذرا دیکھئے تو سہی، اس نے اپنے تخیل کی سحرطرازی اور نادرہ کاری سے تازہ تر لفظوں،
خوب صورت تشبیہوں اور اچھوتے لفظی پیکروں کی کیسی جگمگ کرتی کہکشاں اپنی غزل میں سجائی ہے:
کسی یاد کی حنا کو گل دست شب بنانا
کسی آنکھ کے دیے کو سرطاق شام رکھنا
-----------
دیکھ یہ شب گزیدہ لو، دیکھ مرا پریدہ رنگ
اے مری شمع ہم فراق، سوچ یہ کس کا ہے زیاں
شب اگر ہے تو کسی توشۂ آزار کی شب
رنگ اگر ہے تو کسی خواب پس انداز کا رنگ
-----------
سموم تنگ دلی نے یہ حوصلہ نہ رکھا
کہ شاخ دل کو رکھوں آشیاں کے قصوں میں
-----------
بھری بہار میں اک ساربان ناقۂ وقت
سواد رنج کشاں میں مجھے اُتار آیا
-----------
ہم رنگی موسم کے طلب گار نہ ہونا
سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا
-----------
یہ موسم قدح کی گل اندازیاں درست
اس لالہ پیرہن کی طرح داریاں کہو
-----------
وہ بہار تھی کہ تو تھا، یہ غبار ہے کہ میں ہوں
تو سواد خوش چراغی، میں دیار بے دیاراں
-----------
پیچ و تاب طناب ہوا ہے وہی، شور آشوب موج بلا ہے وہی
میری نقد ہنر، میرا زاد سفر، بس شکستہ سا اک بادباں اور ہے
-----------
چھب دکھائی نہ دے، دُھن سنائی نہ دے، کوئی گردش سراغ رسائی نہ دے
چشم نم کی دھنک، رقص دل کی صدا، تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
-----------
شب ستارہ کشا ہی مقدروں میں نہ تھی
چراغ طاق پہ تھے روشنی گھروں میں نہ تھی
جو اک اشارۂ مژگاں میں تھی سخن رنگی
گل و سمن کے دل آویز دفتروں میں نہ تھی
-----------
ہوا کو طائر بے آشیاں نے شاخ کیا
شکستہ رنگی موسم سے حوصلہ نہ گیا
-----------
کچھ نہ کھلا دم وداع بزم میں چشم خوش ہدف
کس کو بچھا گئی کہاں، کس کو سنبھال لے گئی
یہ دل ہے یا کوئی افسوس کی صراحی ہے
یہ چشم و لب ہیں کہ حسرت بھری ہے پیالوں میں
ان اشعار میں یاد کی حنا، گل دست شب، شب گزیدہ لو، توشۂ آزار کی شب، خواب پس انداز کا رنگ، سموم تنگ دلی، ساربان ناقۂ وقت، سواد رنج کشاں،، ہم رنگی موسم، موسم قدح کی گل اندازیاں، کار غنچہ کاراں، سواد خوش چراغی، پیچ و تاب طناب ہوا، شور آشوب موج بلا، شب ستارہ کشا، چشم نم کی دھنک، رقص دل کی صدا، اشارۂ مژگاں کی سخن رنگی، شکستہ رنگی موسم اور چشم خوش ہدف کے ساتھ ساتھ دل کو افسوس کی صراحی اور چشم و لب کو حسرت بھرے پیالے کہنا نصیر کی ندرت خیال اور قوت ایجاد کا ایک ایسا نادر نمونہ ہے جس کی مثال دوسروں کے ہاں شاذ و نادر ہی مل سکتی ہے۔ اردو کے ساتھ فارسی کے رنگوں کی ایسی خوب صورت اور خوش آہنگ تال میل جس نے نصیر کی غزل کو حسن و زیبائی کا ایک نگارخانہ بنا کر رکھ دیا، غالب کے بعد اور کہاں دیکھنے میں آئی ہے۔ چلئے حسرت اور فیض کے نام تو آپ لے سکتے ہیں مگر کیا ان دونوں کے بعد کوئی اور نام بھی آپ کے ذہن میں آتا ہے؟ آپ کہیں گے، جوش! مگر جوش کے ہاں فارسیت کے زور شور کے ساتھ ساتھ آواز اور لہجے کی ایسی گھن گرج ہے کہ سانس تک لینا محال ہوجاتا ہے۔ رہے راشد تو راشد کی فارسی اتنی لغت زدہ، اتنی ثقیل اور اتنی بوجھل ہے کہ اس کے بوجھ تلے تو خود اردو کا دم بھی گھٹنے لگتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اردو اور فارسی کے رنگوں کی ایسی خوب صورت تال میل جو ہمیں غالب، حسرت اور فیض جیسے شعرا کے ہاں ملتی ہے، ہر ایک کے ہاتھ آسانی سے نہیں آتی۔ فارسی تو ممکن ہے راشد بھی نصیر سے اچھی جانتے ہوں مگر نصیر یا غالب اور حسرت و فیض کی طرح خوش آہنگ اور تازہ کار تراکیب اور لفظی پیکر تراش کر انھیں اردو زبان کے ساتھ اس خوش اسلوبی سے آمیز کرنا کہ وہ اردو زبان کا حصہ بن کر اردو ہی کے معلوم ہونے لگیں، راشد جیسے فارسی دانوں کے بس کی بات نہیں۔
ہاں تو بات یہ ہے کہ زندگی ہو یا شاعری، ہمیں اپنے سلسلۂ نسب کا پتا ضرور دینا چاہیے۔ سو نصیر کی غزل بھی اپنا سلسلۂ نسب ہم سے نہیں چھپاتی۔ اردو میں فارسی کی ہلکی سی آمیزش سے اس کے ہاں خوب صورت تشبیہوں، نادر ترکیبوں اور لفظی پیکروں کے ساتھ غزل کا جو طرز سخن اور پیرایۂ اظہار ملتاہے، اس کے حوالے سے اس کا سلسلہ فیض اور حسرت سے ہوتا ہوا غالب تک پہنچتا ہے۔ مگر اپنے مزاج اور غزل کی داخلی کیفیت کے اعتبار سے وہ غالب کی بجائے میر کے اس قبیلے کا فرد ہے جس کے لیے نظیری نے کہا تھا کہ کسے کہ کشتہ نشد از قبیلۂ مانیست۔ یوں اس کی غزل پر دُور و نزدیک سے پرچھائیاں تو سودا، مومن، شاد، یگانہ، فیض اور مدنی جیسے شعرا کی بھی پڑتی ہیں مگر میر کا اثر اوروں کی نسبت نمایاں ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ اثر اس کے مزاج سے ایک گونہ مناسبت بھی رکھتا ہے۔ چناں چہ اس نے اپنی ایک غزل میں میر کو ’’میرعشق پیشہ‘‘ اور اپنے آپ کو ’’نصیر میر پیشہ‘‘ کہا ہے بلکہ اپنے اور میر کے درمیان چند مشترک خصوصیات کی نشان دہی کی غرض سے ایک پوری غزل ایسی بھی کہی ہے جس کے تقریباً ہر شعر میں اپنے آپ کو میر کی کسی نہ کسی خصوصیت میں شریک قرار دیا ہے۔ اب یہ تو ممکن ہے کہ نصیر نے اس غزل میں جن جن خصوصیات کو میر سے منسوب کیا ہے، ان میں سے بعض کا تعلق میر سے بس واجبی ہی سا ہو اور اس نے خود اپنی ہی مزاجی خصوصیات کو میر کا نام لے کر معتبر بنانے کی کوشش کی ہو۔ یوں بھی میر جیسے شاعر کو کسی ایک یا چند خصوصیات کے دائرے میں بند کرنا انصاف سے بعید ہے۔ لیکن جہاں تک نصیر کی غزل کے بنیادی مزاج کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی دردمندی اور دل سوزی کا ایک رشتہ میر کی دردمندی اور دل سوزی سے ضرور بنتا ہے۔ مثال کے طور پر نصیر کے یہ اشعار دیکھئے جن پر میر کی اس خصوصیت کا اثر صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے:
چاک جگر کو سوزن مژگاں سے کر رفو
دامن بھی تارتار کبھی ہے کبھی نہیں
-----------
گل ہیں کہ فروزاں ہیں دل ہے کہ بجھا چاہے
یہ موسم بے یاراں کیا جانیے کیا چاہے
-----------
اب کہاں لہر کوئی کوچۂ جاناں والی
پھر ہوا ہوگئی زنجیر بیاباں والی
ابر باراں بھی دُھواں، موج ہوا بھی پیچاں
ہر طرف بات وہی زلف پریشاں والی
-----------
میں نوشتۂ خزاں ہوں مرے نام کچھ بہاراں
مرے زخم سب ہرے ہیں کوئی کار غنچہ کاراں
اور اب نصیر کی ’’میر بھی ہم بھی‘‘ والی غزل کا ایک شعر وہ بھی سن لیں جس میں اس نے اپنی اور میر کی ایک مشترک خصوصیت کو دل اور دلّی کے حوالے سے یوں بیان کیا ہے:
دلّی سے بھی کچھ کم تو نہ تھا دل کا اُجڑنا
اک مکتب آزار رہے میر بھی ہم بھی
نصیر کے دل کے اُجڑنے کا حال ہمیں نہیں معلوم۔ ہاں مگر میر کی شاعری دل اور دلّی دونوں کے اُجڑنے کی داستان ہے۔ اور دلّی شہر تو اردو شاعری کی روایت میں اس تہذیب کا دل بھی تھا جس میں عشق ایک تہذیبی قدر کا درجہ حاصل کرچکا تھا۔ عشق کی اسی تہذیب میں باپ بیٹوں کو نصیحت کرتے تھے کہ بیٹا عشق کیا کرو۔ سو بیٹے عشق کرتے تھے اور اس ٹھاٹ سے کرتے تھے کہ ان کی پوری ذات اور پوری زندگی اس کی لپیٹ میں آجاتی تھی۔ وہ عشق کی روشنی میں چلتے تھے، عشق کی روشنی میں دیکھتے تھے اور عشق ہی کے حوالے سے زندگی، کائنات اور تمام انسانی رشتوں کو سمجھتے تھے۔ فراق صاحب نے جب یہ کہا کہ اردو غزل کا عاشق اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے نہیں، اپنی تہذیب کی آنکھوں سے دیکھتا ہے... اپنے ہاتھوں سے نہیں، اپنی تہذیب کے ہاتھوں سے چھوتا ہے، تو ان کا اشارہ بھی عشق کی اس تہذیبی معنویت کی طرف تھا جس نے اسے ایک انفرادی جذبے کی سطح سے اونچا اٹھا کر ایک پورے عہد کی بینائی بنا دیا تھا۔
مگر میر کے لیے دل اور دلّی دونوں کے اُجڑنے کے ایک ہی معنی تھے۔ اس لیے کہ ان کے ہاں دل، عشق کا گھر تھا۔ اور دلّی عشق کی اس تہذیب کا دل جس میں عشق ایک پورے عہد کی بینائی بن کر تہذیبی قدر کا درجہ حاصل کرچکا تھا۔ اس لیے ان دونوں کا اُجڑنا ان کے نزدیک عشق ہی کا اُجڑنا تھا۔سو دل اور دلّی دونوں کا غم ان کے ہاں ایک ہی غم بن گیا۔ اور وہ ایک کی بربادی کے پردے میں دوسرے کی خانماں خرابی کے ماتم گسار رہے۔ لیکن نصیر کے لیے دل کے اُجڑنے کا غم الگ رہا اور شہر کے اُجڑنے کا غم الگ۔ یہ دونوں غم اس کے ہاں مل کر میر کی طرح ایک غم نہ بن سکے... بن بھی نہیں سکتے تھے۔ پھر اوپر سے ایک حادثہ یہ ہوا کہ میر سے نصیر تک آتے آتے بیچ میں غالب، حالی اور فیض نے حائل ہوکر کچھ ایسا تفرقہ ڈالا کہ عشق کی تہذیبی معنویت کا وہ تسلسل بھی نصیر تک پہنچنے سے پہلے ہی منقطع ہوگیا جو اس جذبے کو ایک پورے عہد کی بینائی بنا کر تہذیبی قدر کا درجہ دے سکتا تھا۔ عشق کی اس تہذیبی معنویت میں پہلا رخنہ تو خود غالب ہی نے عشق کو دماغ کا خلل قرار دے کر ڈالا۔ مگر خیر، وہ تو پھر بھی عشق کو درد کی دوا اور درد لا دوا ہی سمجھتے رہے مگر حالی پر تو سرسید کے ساتھ ساتھ مغرب سے آئی ہوئی عقلیت کا سایہ ایسا پڑا کہ انھیں عشق کی واردات میں خسارہ ہی خسارہ نظر آیا۔ سو انھوں نے فرزندان قوم کو عشق کے دھوکے میں نہ آنے کی پٹی پڑھا کر اصلاحی شاعری اور قومی خدمت کے کام پر لگا دیا۔ پھر فیض آئے اور چار دن عشق کے موضوع سخن سے جی بہلا کر ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ کے عذر کے ساتھ یہ کہتے ہوئے عشق سے مستعفی ہوگئے کہ:
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
اس کے بعد ترقی پسند شعرا کی کھیپ کی کھیپ محبوب سے رسہ تڑا کر دنیا کی مزاج پرسی کے لیے بھاگتی نظر آئی۔ سو آخر میں محبت کا پٹڑا کرنے والے ان لوگوں کو تو آنا ہی تھا جنھوں نے یہ فیصلہ سنانے میں دیر نہیں لگائی کہ اب محبت کا دور گیا، ہمیں محبت کی نہیں، طاقت کی ضرورت ہے، زور و زر کی ضرورت ہے۔ عزیز حامد مدنی جو ہمارے ہاں ایک بہت مضطرب روح اور بیدار دل و دماغ لے کر آئے تھے، انھوں نے اس صورت حال کے نتائج کو بھانپتے ہوئے گھبرا کر پوچھا کہ:
ایسی کوئی خبر تو نہیں ساکنان شہر
دریا محبتوں کے جو بہتے تھے تھم گئے
ہمارے ایک طرح دار غزل گو نے جواب دیا کہ:
عشق کرنا جوسیکھا تو دنیا برتنے کا فن آگیا
کاروبار جنوں آگیا ہے تو کار جہاں آئے ہیں
ایک دوسرے شاعر نے جس کے لیے عشق کی واردات کاروبار کا درجہ اختیار کرچکی تھی، لگی لپٹی رکھے بغیر، تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ:
پہلے تھا جو بھی، آج مگر کاروبار عشق
دنیا کے کاروبار سے ملتا ہوا سا ہے
اور تیسرے نے بھی کسی ایچ پیچ کے بغیر صاف لفظوں میں اعتراف کر لیا کہ:
یوں ہے کہ تعاقب میں ہے آسائش دنیا
یوں ہے کہ محبت سے مکر جائیں گے اک دن
سو ایک طرف تو محبت سے مکرنے اور طاقت کے بل پر لوگوں سے نیا رشتہ قائم کرنے کا نتیجہ تشدد، جارحیت، قتل و غارت گری اور تخریب کاری کی صورت میں برآمد ہوا اور دوسری طرف زر کی محبت نے تمام انسانی رشتوں میں زہر گھول دیا۔
مگر نصیر ترابی کا شعری سفر اس دور پر آشوب کے آنے سے پہلے ہی شروع ہوکر قبولیت و اعتبار کی راہوں پرگامزن ہوچکا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اور نصیر جیسے کتنے ہی سرپھرے نوجوان اپنے دوسرے ہم عمروں اور قدرے سینئر دوستوں کے ساتھ اس جاگتے جگمگاتے شہر کی روشنیوں میں اپنی تہذیب جاں کی روشنی کو شامل کرکے اس شہر کو بھی میر کے دلّی شہر کی طرح ایک ایسی تہذیب کا دل بنانا چاہتے تھے جس میں عشق کی روشنی ایک پورے عہد کے لیے مشعل راہ کا کام دے سکے۔ اُدھر ناصرکاظمی بھی اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں ہجرت کے المیے سے گزر کر جلتے ہوئے شہروں اور سلگتی ہوئی بستیوں کا بہت کچھ سوگ منانے کے بعد بالآخر لاہور کی گلیوں سے مانوس ہونے لگا تھا۔ اور شاخوں پر جلے ہوئے بسیروں میں ایک نئی فصل گل کا سراغ ڈھونڈتے ہوئے لاہور کی رونقوں کو یوں دعائیں دے رہا تھا کہ:
شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
اور ادھر عزیز حامد مدنی، جسے سلیم احمد نے بڑے شہر کا شاعر کہا ہے، اپنی تہذیب جاں کی روشنی کراچی کے کوچہ و بازار میں تقسیم کرتے ہوئے بڑے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہہ رہا تھا:
وہ شکست دل کہ تھی تہذیب جاں کی روشنی
ہم جدھر نکلے چراغ رہ گزر ہوتی گئی
نصیر اور نصیر جیسے کتنے ہی نوجوان شعرا اس وقت تہذیب جاں کی روشنی کے رنگ ڈھنگ اور تہذیب شعر کے ادب آداب ناصرکاظمی اور مدنی جیسے شعرا کی آوازوں سے اخذ کر رہے تھے۔ نوجوانی کے اس زمانے میں جب دن راتوں سے زیادہ حسین اور راتیں دنوں سے زیادہ پرکیف تھیں، ان نوجوانوں کے لہو میں آگ تھی، سر میں سودا تھا، دل میں امنگ تھی اور آنکھوں میں نئی زندگی کے خواب رقصاں تھے۔ لیکن اس وقت کسے خبر تھی کہ ما در چہ خیالیم و فلک در چہ خیال۔ نصیر ابھی اپنے پس انداز خوابوں کے رنگ اپنی غزل کے آئینے میں منعکس کر ہی رہا تھا کہ دفعتاً رنگ پھیکے پڑنے لگے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسی آگ برسی کی نئی زندگی کے سارے خواب جل کر راکھ ہوگئے۔ وقت کا سیلاب امیدوں اور آرزوؤں کے سارے گھروندوں کو بہا لے گیا۔ منزلیں راہوں کے غبار میں گم ہوگئیں۔ جان سے عزیز رشتے کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئے اور تہذیب و معاشرت سے لے کر ادب و فن تک، زندگی کے تمام شعبوں کا وقار و اعتبار اور حسن و جمال جن قدروں سے وابستہ تھا، وہ پامال ہوکر رہ گئیں۔ کراچی کی روشنیاں کیا بجھیں، یاروں کے دل بھی بجھ گئے۔ اور نغمہ و شعر کی بساط کراچی ہی میں نہیں، لاہور تک میں الٹتی نظر آئی۔ ناصرکاظمی اپنی زندگی میں اس صورت حال کی صرف ایک ابتدائی جھلک ہی دیکھ پایا تھا۔ اس کے باوجود اس نے اسے ایک نئے عہد کے جنم لینے اور ایک تہذیب کے فنا ہونے سے تعبیر کرتے ہوئے بڑے دُکھ کے ساتھ لکھا کہ:
وہ شاعروں کا شہر وہ لاہور بجھ گیا
اُگتے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی
ادھر وقت اور زمانے کے تغیرات کو خوش آئند مستقبل کی نوید سمجھنے والے مدنی جیسے شاعر کے ہاں بھی یہ صورت حال ایک وسیع تر عالمی تناظر میں کشت آدم کے جل جانے کا خوف بن کر نمودار ہوئی۔
مگر پھر مدنی تو راستے کے پیچ و خم میں گم ہوکر رہ جانے والی محبت کی منزلوں کا کھوج لگانے کے لیے رکنے کی بجائے اپنی شاعری میں رصدگاہوں، آپریشن تھیٹروں اور پیٹرول پمپوں کے بے خواب اسٹیشنوں سے آباد، نیا شہر بسانے کے لیے آگے بڑھ گئے اور وقت کا گاڑی بان نصیرترابی کو اپنے خوابوں کے اس شہر کا ماتم کرنے کے لیے سواد رنج کشاں میں اُتارکر چل دیا جسے اپنے دل و جاں کی تمام تر محبتوں کے ساتھ تہذیب عشق کا شہر بنانے کے خواب اس نے نہ جانے اپنے کتنے ہم راہیوں کے ساتھ دیکھے تھے۔ میر نے اپنے غم کی دوہری واردات کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
مصائب اور تھے پھر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
کچھ ایسا ہی معاملہ نصیر کے ساتھ بھی پیش آیا۔ اس کے دل کا نگر تو اُجڑا ہی تھا، اس کے خوابوں کا شہر بھی مسمار ہوگیا۔ اس شہر کے سارے مہکتے ہوئے موسم جھلس کر رہ گئے۔ ساری لہکتی ہوئی رُتوں کو باد سموم کھا گئی۔ شہر یاراں کی صبخیں بے نور اور شامیں بے چراغ ہوگئیں۔ وہ چہچہے رہے نہ وہ قہقہے، وہ سلیقے رہے نہ وہ قرینے، شب زندہ داریوں کی رسم اُٹھ گئی، کوچہ گردیوں کی ریت ختم ہوئی، کوئے دلبراں سے لے کر حلقۂ یاراں تک ہر جگہ خاک اڑنے لگی۔ اس کے رت جگوں کا شہر ایسا اُجڑا کہ کوچے تو کوچے، دلوں میں بھی وسعت باقی نہ رہی۔ نہ کوئی غم خوار غم جاناں رہا نہ دم ساز دل ویراں۔ جاں دادگی کی فصل اُجڑ گئی، آوارگی کے دن بیت گئے، محبتیں نفرتوں میں بدل گئیں، دل زدگاں کا شہر، شہر خموشاں بن گیا۔ کوئی رنگ مہر، کوئی موج شناسائی کسی آنکھ میں باقی نہ رہی۔ ایسے محرمان سخن بھی کہیں نہ رہے جن سے کوئی دل کی بات کہی جاسکے۔ اب وہ جائے تو کہاں جائے اور کرے تو کیا کرے۔ وہ دم ساز صبخیں، وہ دل دار شامیں کہاں سے ڈھونڈ کر لائے جنھیں بیتے دنوں کے کارواں کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لیے اپنے ساتھ لے کر کوچ کر گئے۔ تہذیب عشق کی جس روشنی کا وہ امانت دار ہے، اسے تقسیم کرنے کے لیے ان دل کے ماروں کو کہاں جا کے ڈھونڈے جو ماہ و سال کی گردشوں کے بیچ کہیں راستے میں بچھڑ کر رہ گئے۔ سو اب وہ کسی سے کچھ پوچھے تو کیا پوچھے اور کہے تو کیا کہے۔ سوائے اس کے کہ:
تم شہر آشنا ہو تمھی یک دلاں کہو
اب کون مہرباں ہے کسے مہرباں کہو
جو شب کبھی نہ آئی تھی، وہ شب بھی آگئی
شعلے کو اب چراغ کہو یا دُھواں کہو
-----------
کہاں وہ شہر کی شامیں شکستہ حالوں میں
چراغ جلتے ہی باتیں کریں خیالوں میں
ہرے بھرے کسی موسم کی بازیابی کو
رکھے ہیں زخم ہی زخموں کے اندمالوں میں
-----------
اب صبح نہیں دم ساز کوئی، اب شام نہیں دل دار کوئی
یا شہر کے رستے بند ہوئے یا دل میں اٹھی دیوار کوئی
وہ شہر نہیں وہ دور نہیں، وہ لوگ نہیں وہ طور نہیں
سر اپنا اٹھا کر کون چلے، کیا سر پہ رکھے دستار کوئی
-----------
اے مری زندگی، اے مری ہم نوا، تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
کچھ نہ اپنی خبر کچھ نہ تیرا پتا، تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
جتنے چہرے چراغوں کے تھے بجھ گئے، اب وہ جلسے گئے وہ قرینے گئے
اب کدھر جی لگے شام یاراں بتا، توکہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
درد میں درد کی سی چمک ہی نہیں، وہ زمیں ہی نہیں وہ فلک ہی نہیں
بے ستارہ ہے شب، اے شب آشنا، تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
-----------
آئیں گے لوٹ کر کہاں بیتے دنوں کے کارواں
گرد بھی ساتھ لے گئے ناقہ سوار و سارباں
دل سر شام بجھ گئے، رنگ تمام بجھ گئے
سوچ رہا ہوں دیر سے، جاؤں کہیں مگر کہاں
-----------
ہوائے دشت ختن دل کو کھینچ رکھتی تھی
رمیدگی بھی صفت تھی کبھی غزالوں میں
-----------
چشم تر میں نہ رہی بات وہ پہلے جیسی
اے غم جاں، یہ زیاں، دل کا زیاں ہے کہ نہیں
-----------
چلے تھے دل کے حوالے سے نام کرنے کو
ملا نہ راہ میں کوئی سلام کرنے کو
بس یہی نصیر کا وہ دکھ ہے جسے اس نے بڑے سلیقے اور قرینے سے اپنی غزل کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ ان اشعار میں دل آسائی کی جو کیفیت ہے، وہ تو ظاہر ہی ہے، لیکن اس کیفیت کو نصیر نے کیسا پرکیف آہنگ دیا ہے، کیسی مترنم لے میں اسے ڈھالا ہے! اک جوئے رواں ہے کہ بہتی چلی جاتی ہے اور ہمیں بھی اپنے ساتھ بہائے لیے جاتی ہے۔ کوئی تکلف نہیں، کوئی تصنع نہیں۔ یہ شاعری نہیں، ساحری ہے۔ اور یہ تو صرف چند اشعار ہیں جو میں نے ادھر اُدھر سے نقل کر دیے۔ ورنہ اس کے ہاں بعض غزلیں تو پوری کی پوری ایسی ہیں جن میں اس نے اپنے اسی دکھ کو روتی بسورتی ہوئی آواز میں نہیں، بہت شگفتہ اور تازہ تر اسلوب میں کچھ ایسا بنا سنوار کر پیش کیا ہے کہ اس کے غم میں بھی ایک نشاطیہ آہنگ پیدا ہوگیا ہے۔ ایسی خوش آہنگ، ایسی خوش زمزمہ اور ایسی تازہ کار غزلیں کہ انھیں از اوّل تا آخر پوری کی پوری نقل کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر پھر تو نصیر کے سراپا انتخاب شعری مجموعے کی غزلوں میں سے کچھ بھی چھوڑنے کو جی نہ چاہے گا۔ لہٰذا پہلے ’’تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا‘‘ والی پرکیف غزل کے چند خوب صورت شعر اور دیکھتے چلئے۔ مطلع پہلے بھی نقل ہوچکا ہے۔ مگر ایک بار پھر سہی:
اے مری زندگی اے مری ہم نوا، تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
کچھ نہ اپنی خبر کچھ نہ تیرا پتا، تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
دیکھنا دُور تک خاک اُڑنے لگی، کس خرابے کو یہ راہ مڑنے لگی
مجھ کو آواز دے وادی جاں فزا، تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
اے مری شمع جاں، صورت مہرباں، اب یہ شہر گماں ہے دُھواں ہی دُھواں
تو یقیں ہے مرا، تو کہیں ہے تو آ، تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
چھب دکھائی نہ دے دُھن سنائی نہ دے، کوئی گردش سراغ رسائی نہ دے
چشم نم کی دھنک، رقص دل کی صدا، تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
غم وہ بادل کہ یک جا ٹھہرتا نہیں، دل وہ دریا کہ یک سو گزرتا نہیں
شاد و آباد رہنے کی رسم دعا، تو کہاں رہ گئی میں کہاں آگیا
اس طرح کی اور بھی کئی غزلیں نصیر کے ہاں ہیں۔ جی تو چاہتا تھا کہ ان غزلوں کے بھی
کم از کم دو دو چار چار شعر یہاں نقل کرتا چلوں، لیکن طوالت کے خوف سے ان میں سے صرف چند ایک کے مطلعے ہی ذیل میں درج کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:
رہ گزر رہ گزر اے دل بے خبر، وہ سماں اور تھا یہ سماں اور ہے
رخ بدل کر بھی چل، کچھ سنبھل کر بھی چل، اب زمیں اور ہے آسماں اور ہے
-----------
یاں حال سے میں بے حال ہوا کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں
وہ پوچھنے والا بھول گیا، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں
-----------
اب صبح نہیں دم ساز کوئی، اب شام نہیں دل دار کوئی
یا شہر کے رستے بند ہوئے یا دل میں اٹھی دیوار کوئی
اب اگر ہم ان غزلوں کو نصیر کے مجموعے میں ایک بار شروع سے آخر تک پڑھ کر دیکھیں تو ان میں بھی ہمیں اس کا وہی دکھ لہریں لیتا ہوا محسوس ہوگا جسے نصیر نے کچھ اس سلیقے اور قرینے سے شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے کہ وہ ہمارے وجود کے تاروں کو اندر سے بہت گہرائی میں جاکر چھوتا ہے اور ہم اس کے اثر کو درد کی ایک ہلکی سی کسک کی صورت میں دیر تک اپنے دل کے اندر محسوس کرتے ہیں۔ یہ دکھ جس کی لہریں اس کی آواز کے زیر و بم کے ساتھ اس کے پورے کلام میں جابہ جا ڈوبتی ابھرتی محسوس ہوتی ہیں، ہم ان لہروں کے بہاؤ کو اس کے دل کے سارے دکھ درد اور اس کی روح کے تمام تر کرب و اضطراب کے ساتھ اپنے اندر محسوس کرکے خود بھی دکھی ہوجاتے ہیں۔ اس کی دکھ بھری آواز کا نشاطیہ آہنگ ہمیں بھی افسردہ اور اداس کر جاتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی افسردگی اور اداسی کچی چاندی کی طرح سچی اور خالص ہے۔ نصیر کو خود بھی اس بات کا احساس ہے۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ:
بے نوا کا کوئی ہم نوا بھی تو ہو، کم سخن کا کوئی ہم سخن بھی تو ہو
اے نصیر اک نوا ہے اداسی تری، اس اداسی کا حسن بیاں اور ہے
پھر اس ضمن میں ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ نصیر نے چوں کہ اردو اور فارسی کی کلاسیکی روایت سے بھی اکتساب فیض کیا ہے، اس لیے اپنے دکھ درد کے بیان میں اس کے ہاں رومانی شعرا والی وہ جذباتیت نہیں جس کی رو میں رومانیت زدہ شعرا خود بھی بہہ نکلتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اس کے ہاں سچا اور کھرا جذبہ ہے۔ ایسا جذبہ جس کا اظہار اس کی آواز میں کہیں بھی پتلاپن پیدا نہیں کرتا بلکہ اس میں اس روک تھام، اس ٹھہراؤ اور اس پروقار ضبط کا سلیقہ نظر آتا ہے جو ایک پختہ تہذیبی روایت کی دین اور اس روایت میں رچے ہوئے مزاج کی نشانی ہے۔
شاعری کوئی خلا میں نہیں پیدا ہوتی۔ اس کاایک تاریخی اور تہذیبی تسلسل بھی ہوتا ہے۔ میں نے نصیر کی شاعری کے اس تاریخی اور تہذیبی پس منظر کو بیان کر دیا جس نے اس کی غزل کے لیے زمین تیار کرنے کا کام انجام دیا۔ اس زمین میں نصیر نے اپنے فکر و احساس کی کاوشوں اور خون جگر کی تراوشوں سے کیسے کیسے خوش رنگ اور تر و تازہ پھول کھلائے، تھوڑی سی جھلک ان کی بھی دکھا دی اور ساتھ ہی اس کی غزل کے بنیادی مزاج کی نشان دہی بھی کر دی لیکن اس کی غزل کا کوئی بھرپور تنقیدی جائزہ لینا
اس تحریر کا مقصود نہیں۔ یہ کام میں دوسرے صاحبان نقد و نظر کے لیے چھوڑتا ہوں۔ مگر آخر میں اتنی
بات ضرور عرض کروں گا کہ نصیر اپنی غزل میں جس درد سے بے حال اور جس دکھ سے نڈھال ہے، وہ
سنگ و خشت سے تعمیرشدہ کسی شہر کے اُجڑنے یا جلنے کا دکھ نہیں بلکہ اس تہذیبی روح کی بربادی کا دکھ
ہے جو تہذیبی معنویت کے سانچے میں ڈھلنے سے پہلے ہی بکھر کر رہ گئی۔ چناں چہ اس کے ہاں راستے کے پیچ و خم میں گم ہو کر رہ جانے والی منزل کا دکھ اور ماضی کے اوراق گم شدہ کا ملال چاہے جتنا بھی ہو، مگر یہ کوئی ناسٹلجیا (Nostalgia) نہیں بلکہ یہ ایک سفر ہے، اس منزل کی طرف جو راہوں کے غبار میں کہیں گم ہوگئی، گم ہوگئی مگر باقی ہے۔ باقی ہے اور آواز دیتی ہے۔ نصیر اس آواز کو سن کر اس کی طرف بڑھتا بھی ہے اور اسے اپنی طرف بلاتا بھی ہے، کبھی امید کے ساتھ، کبھی افسردگی کے ساتھ اور کبھی اپنے دل کے گھٹتے بڑھتے درد کے ساتھ کہ یہ درد تو اس کی جان کے ساتھ نہ جانے کب سے لگا ہوا ہے مگر اپنے سفر میں بار بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے کے باوجود آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی کچھ کم نہیں رکھتا۔ جبھی تو وہ کہتا ہے کہ:
مرا سفر عجب آشوب کا سفر ہے نصیر
وہ آئے جس میں ہو چلنے کا حوصلہ آگے
 
Top