نظر لکھنوی غزل: کیف و سرورِ خلد کہ اس رہ گزر میں ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

دادا مرحوم (محمد عبد الحمیدصدیقی نظرؔ لکھنوی ) کے کلام کو برقیانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ایک غزل پیشِ خدمت ہے :

کیف و سرورِ خلد کہ اس رہ گزر میں ہے
دنیا بہ اشتیاق اسی جانب سفر میں ہے

شیرینیِ زباں کہ جو اس فتنہ گر میں ہے
اک اعتبار وعدۂ نا معتبر میں ہے

منزل کا کوئی ہوش نہ جادہ نظر میں ہے
اس کارواں پہ حیف جو یونہی سفر میں ہے

لوگوں کا دل نہیں ہے کہ وہ مستفیض ہوں
اندازِ رنگ و بو وہی گل ہائے تر میں ہے

یہ زندگی نہ دے گی متاعِ سکوں تجھے
بے چاری خود ہی گردشِ شام و سحر میں ہے

کیا دورِ انقلاب ہے اللہ کی پناہ
اب گمرہی بھی پیرویِ راہبر میں ہے

تیرے ہی دل میں جوشِ لہو اب نظرؔ نہیں
حالانکہ معرکہ تو وہی خیر و شر میں ہے
٭٭٭

محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
تابش صاحب، اگر برقیانہ ہے تو مکمل کلام برقیائیں۔ بہت اعلیٰ کلام ہے۔ مکمل غزل پوسٹ کیجیے۔ عنایت ہو گی۔
 
پسند فرمانے کا شکریہ۔
دادا مرحوم کا زیادہ تر کلام نعتیہ ہے، جو کہ لگ بھگ دس سال پہلے چھپوا دیا تھا۔ اس کے حوالے سے ایک تعارفی پروگرام اے۔ آر۔ وائی۔ کیو۔ ٹی۔ وی۔ میں پیش ہوا۔
اس کے علاوہ غزلیات، نظمیات و قطعات مختلف ڈائریوں اور کاپیوں کی صورت میں موجود ہیں، بڑے عرصے سے اس کام کو کرنے کا ارادہ تھا۔ اب اللہ کا نام لے کر شروع کر دیا ہے۔
دعا کیجئے کہ سلسلہ جاری رکھ سکوں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پسند فرمانے کا شکریہ۔
دادا مرحوم کا زیادہ تر کلام نعتیہ ہے، جو کہ لگ بھگ دس سال پہلے چھپوا دیا تھا۔ اس کے حوالے سے ایک تعارفی پروگرام اے۔ آر۔ وائی۔ کیو۔ ٹی۔ وی۔ میں پیش ہوا۔
اس کے علاوہ غزلیات، نظمیات و قطعات مختلف ڈائریوں اور کاپیوں کی صورت میں موجود ہیں، بڑے عرصے سے اس کام کو کرنے کا ارادہ تھا۔ اب اللہ کا نام لے کر شروع کر دیا ہے۔
دعا کیجئے کہ سلسلہ جاری رکھ سکوں۔
مندرجہ بالا وڈیو لنک فعال نہیں ۔ اللہ آپ کے لیے آسانیاں فراہم کرے ۔آمین
 
مکمل غزل پوسٹ کیجیے۔ عنایت ہو گی۔
پیشِ خدمت ہے:

کیف و سرورِ خلد کہ اس رہ گزر میں ہے
دنیا بہ اشتیاق اسی جانب سفر میں ہے

شیرینئ زباں کہ جو اس فتنہ گر میں ہے
اک اعتبار وعدۂ نا معتبر میں ہے

منزل کا کوئی ہوش نہ جادہ نظر میں ہے
اس کارواں پہ تف ہے جو یونہی سفر میں ہے

لوگوں کا دل نہیں ہے کہ وہ مستفیض ہوں
اندازِ رنگ و بو وہی گل ہائے تر میں ہے

یہ زندگی نہ دے گی متاعِ سکوں تجھے
بے چاری خود ہی گردشِ شام و سحر میں ہے

کیا دورِ انقلاب ہے اللہ کی پناہ
اب گمرہی بھی پیروئ راہبر میں ہے

تیرے ہی دل میں جوشِ لہو اب نظرؔ نہیں
حالانکہ معرکہ تو وہی خیر و شر میں ہے​
 
Top