نظر لکھنوی غزل: کہیے کس درجہ وہ خورشید جمال اچھا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

اسی زمین میں ایک اور غزل

کہیے کس درجہ وہ خورشید جمال اچھا ہے
مختصر یہ کہ وہ آپ اپنی مثال اچھا ہے

دوسروں کے دلِ نازک کا خیال اچھا ہے
کوئی پوچھے تو میں کہہ دیتا ہوں حال اچھا ہے

آئے دن کی تو نہیں ٹھیک جنوں خیزیِ دل
موسمِ گل تو یہ بس سال بہ سال اچھا ہے

مجھ کو کافی ہے میں سمجھوں گا اسے حسنِ جواب
بس وہ فرما دیں کہ سائل کا سوال اچھا ہے

یہ جو بگڑا تری تقدیر بگڑ جائے گی
دل ہے دل یہ، اسے جتنا بھی سنبھال اچھا ہے

اِس سے زائل ہو نظرؔ، اُس سے ہو دل تک روشن
روئے خورشید سے وہ روئے جمال اچھا ہے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top