پروین شاکر غزل- کسے خبر ہے کہ کیا رنج و غم اٹھاتے ہیں‌ - پروین شاکر

محمد نعمان

محفلین
کسے خبر ہے کہ کیا رنج و غم اٹھاتے ہیں
تراش کر جو زباں کو قلم اٹھاتے ہیں

قراردادِ محبت تو کب کی فسخ ہوئی
فریق آج یہ کیسی قسم اُٹھاتے ہی‫‫ں

زمیں کی پُشت تحمل سے دُہری ہو جائے
اگر وہ بوجھ اٹھائے جو ہم اٹھاتے ہیں

مثالِ دُردِ تہِ جام ہیں‌ کہ بیٹھ کے بھی
اک اور حشر پسِ جامِ جِم اُٹھاتے ہیں

ہمیں بُجھانے کو اندر کا حبس کافی ہے
ہوا مزاجوں کا احسان کم اُٹھاتے ہیں

وہاں‌ بھی ہم تو ستارہ سوار تھے کہ جہاں
بہت ہی سوچ سمجھ کے قدم اُٹھاتے ہیں
 


قراردادِ محبت تو کب کی فسخ ہوئی
فریق آج یہ کیسی قسم اُٹھاتے ہیں‫

مثالِ دُردِ تہِ جام ہیں‌ کہ بیٹھ کے بھی
اک اور حشر پسِ جامِ جِم اُٹھاتے ہیں

بہت خوب واقعی کمال کی غزل ھے اور یہ دو اشعار تو بہت خوب ھیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کسے خبر ہے کہ کیا رنج و غم اٹھاتے ہیں
تراش کر جو زباں کو قلم اٹھاتے ہیں

قراردادِ محبت تو کب کی فسخ ہوئی
فریق آج یہ کیسی قسم اُٹھاتے ہیں

زمیں کی پُشت تحمل سے دُہری ہو جائے
اگر وہ بوجھ اٹھائے جو ہم اٹھاتے ہیں

مثالِ دُردِ تہِ جام ہیں‌ کہ بیٹھ کے بھی
اک اور حشر پسِ جامِ جِم اُٹھاتے ہیں

ہمیں بُجھانے کو اندر کا حبس کافی ہے
ہوا مزاجوں کا احسان کم اُٹھاتے ہیں

وہاں‌ بھی ہم تو ستارہ سوار تھے کہ جہاں
بہت ہی سوچ سمجھ کے قدم اُٹھاتے ہیں

__________________



بہت خوب!
 

فرخ منظور

لائبریرین
زمیں کی پُشت تحمل سے دُہری ہو جائے
اگر وہ بوجھ اٹھائے جو ہم اٹھاتے ہیں

مثالِ دُردِ تہِ جام ہیں‌ کہ بیٹھ کے بھی
اک اور حشر پسِ جامِ جِم اُٹھاتے ہیں

واہ بہت خوب نعمان صاحب ۔
وارث صاحب، پروین کا کچھ کلام تو واقعی بہت اچھا ہے۔ :)
 

محمد نعمان

محفلین
تمام احباب کا بہت شکریہ۔۔۔۔۔
پروین شاکر ایک خوبصورت شاعر تھیں اور ابھی تک ان کا ایک خاص مقام ہے شاعروں میں۔۔۔۔یہ ایک حقیقت ہے۔
 
Top