امجد اسلام امجد غزل - کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے - امجد اسلام امجد

محمد وارث

لائبریرین
کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے

سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کی
اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے

سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل
طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے

یہ بستی ہے ستم پروردگاں کی
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے

کنارا دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے

دلوں کی روشنی بجھنے نہ دینا
وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے

میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں
کوئی اس زخم کا مرہم نہیں ہے

جو کوئی سن سکے امجد تو دنیا
بجز اک باز گشتِ غم نہیں ہے

(امجد اسلام امجد)
 

فرخ منظور

لائبریرین
امجد کی ایک اور نمائندہ غزل - بہت شکریہ وارث صاحب!‌
کنارا دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ وارث‌ صاحب!
زبردست لکھا ہے امجد اسلام امجد نے مگر اس میں "موسم" کا قافیہ غلط ہے۔
اور امجد غالب تو ہیں نہیں کہ "باہِر" کو "باہَر" باندھنے پر اسے غلط العام کی سند عطا ہو جائے۔;)
 

الف عین

لائبریرین
کیا اس کا ثبوت ہے کہ موسم میں کسرہ ہے؟ سنا میں نے بھی ہے، لیکن زیادہ تر تو بالفتح ہی بولا جاتا ہے۔ اس طرح قافیہ درست ہی ہنا چاہئے۔ یہی معاملہ باہِر کا بھی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
کیا اس کا ثبوت ہے کہ موسم میں کسرہ ہے؟ سنا میں نے بھی ہے، لیکن زیادہ تر تو بالفتح ہی بولا جاتا ہے۔ اس طرح قافیہ درست ہی ہنا چاہئے۔ یہی معاملہ باہِر کا بھی ہے۔

موسم دراصل عربی زبان کا لفظ ہے اور نہ صرف تمام عربی قاموس میں بلکہ اردو لغات مثلا "فیروز اللغات" اور "فرہنگ آصفیہ" وغیرہ میں بھی اسے بالکسرہ ہی لکھا گیا ہے۔ مزید یہ کہ میں نے اسے عرب اہل زبان کی زبانی بھی ہمیشہ بالکسرہ ہی سنا ہے۔ اگر اسے بالفتح بولا جاتا ہے تو میرے خیال میں ہنوز یہ غلط العوام کے زمرے میں ہی آتا ہے۔

"باہِر" کے غلط استعمال کا معاملہ چونکہ غالب سے متعلق ہے لہٰذا ادبا اور شعرا نے اسے غلط العام قرار دے دیا لیکن غالب کے سوا شاید ہی کسی شاعر نے "باہِر" کی ہ کو بالفتح باندھا ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ وارث‌ صاحب!
زبردست لکھا ہے امجد اسلام امجد نے مگر اس میں "موسم" کا قافیہ غلط ہے۔
اور امجد غالب تو ہیں نہیں کہ "باہِر" کو "باہَر" باندھنے پر اسے غلط العام کی سند عطا ہو جائے۔;)


شکریہ فاتح صاحب۔

امجد واقعی غالب نہیں ہیں، لیکن بہرحال اس دور کا ثقہ اور مشہور شاعر ہیں، اور ہو سکتا ہے انہوں نے بھی یہ قافیہ کسی سند کی بنیاد پر ہی باندھا ہو، لیکن اگر غلطی ہے تو ان کو مطلع بھی کرنا چاہیئے اس پر۔

ویسے لغت کی بجائے اگر کسی شعر کا حوالہ مل جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، مشکل کام ہے کہ 'موسم' ڈھونڈیں اور وہ بھی کسی قافیے میں بندھا ہوا اور اس گرمی کے موسم میں :)۔ بہرحال میں کوشش کرتا ہوں، آپ بھی دیکھیئے گا۔ نوازش۔
 

ان کہی

محفلین
میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں​
کوئی اس زخم کا مرہم نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
بہت خوب انتخاب ہے........!!


 
عجیب بات ہے ردیف اور قافیے تک جاننے کی تجسس ہوتی متن اور لڑی موضوع یہ ڈهونڈو جو الزام رد الزام ہے ڈال دو اپنا غزل آن کی طرح اپنے نام کیساتهہ لوگ اس میں ہزار خامی ڈهونڈے گے جب لکھنے بیهٹو تو پتہ چلتا ہے کہ ردیف اور قافیہ کیسے بنتے
 
موسم دراصل عربی زبان کا لفظ ہے اور نہ صرف تمام عربی قاموس میں بلکہ اردو لغات مثلا "فیروز اللغات" اور "فرہنگ آصفیہ" وغیرہ میں بھی اسے بالکسرہ ہی لکھا گیا ہے۔ مزید یہ کہ میں نے اسے عرب اہل زبان کی زبانی بھی ہمیشہ بالکسرہ ہی سنا ہے۔ اگر اسے بالفتح بولا جاتا ہے تو میرے خیال میں ہنوز یہ غلط العوام کے زمرے میں ہی آتا ہے۔

"باہِر" کے غلط استعمال کا معاملہ چونکہ غالب سے متعلق ہے لہٰذا ادبا اور شعرا نے اسے غلط العام قرار دے دیا لیکن غالب کے سوا شاید ہی کسی شاعر نے "باہِر" کی ہ کو بالفتح باندھا ہو۔

شکریہ فاتح صاحب۔

امجد واقعی غالب نہیں ہیں، لیکن بہرحال اس دور کا ثقہ اور مشہور شاعر ہیں، اور ہو سکتا ہے انہوں نے بھی یہ قافیہ کسی سند کی بنیاد پر ہی باندھا ہو، لیکن اگر غلطی ہے تو ان کو مطلع بھی کرنا چاہیئے اس پر۔

ویسے لغت کی بجائے اگر کسی شعر کا حوالہ مل جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، مشکل کام ہے کہ 'موسم' ڈھونڈیں اور وہ بھی کسی قافیے میں بندھا ہوا اور اس گرمی کے موسم میں :)۔ بہرحال میں کوشش کرتا ہوں، آپ بھی دیکھیئے گا۔ نوازش۔

میر تقی میر
نالۂ قید قفس سے چھوٹ اب اک دم نہیں
گوش گل سے لگتے تھے جا کے سو وہ موسم نہیں

ہم پہ کھینچی تیغ تو غیروں کو ٹک لگنے نہ دے
وے اگر ہوویں گے اس کے درمیاں تو ہم نہیں

بت برہمن کوئی نامحرم نہیں اللہ کا
ہے حرم میں شیخ لیکن میرؔ وہ محرم نہیں
***

غیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی
کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی

کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی

ہمیں تو باغ کی تکلیف سے معاف رکھو
کہ سیر و گشت نہیں رسم اہل ماتم کی

تنک تو لطف سے کچھ کہہ کہ جاں بلب ہوں میں
رہی ہے بات مری جان اب کوئی دم کی

گذرنے کو تو کج و واکج اپنی گذرے ہے
جفا جو ان نے بہت کی تو کچھ وفا کم کی

گھرے ہیں درد و الم میں فراق کے ایسے
کہ صبح عید بھی یاں شام ہے محرم کی

قفس میں میرؔ نہیں جوش داغ سینے پر
ہوس نکالی ہے ہم نے بھی گل کے موسم کی
 
آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
"باہِر" کے غلط استعمال کا معاملہ چونکہ غالب سے متعلق ہے لہٰذا ادبا اور شعرا نے اسے غلط العام قرار دے دیا لیکن غالب کے سوا شاید ہی کسی شاعر نے "باہِر" کی ہ کو بالفتح باندھا ہو۔
مجھے نہیں پتہ کہ الفاظ کیسے باندھے جاتے ہیں لیکن میر کے درج ذیل اشعار میں باہر کے "ہ" پر مجھے زبر ہی لگ رہا ہے۔

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بیتاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا کریں تدبیر دل مقدور سے باہر ہے اب
ناامید اس زندگانی کرنے سے اکثر ہے اب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار جب جہاں سے گیا
ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا
عیب طول کلام مت کریو
کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہوں اب کے جنوں میں گھر کا بھی رہنا گیا
کام جو مجھ سے ہوا سو عقل سے باہر ہوا
شب نہ کرتا شور اس کوچے میں گر میں جانتا
اس کی بے خوابی سے ہنگامہ مرے سر پر ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جائیں تو جائیں کہاں جو گھر رہیں کیا گھر رہیں
یار بن لگتا نہیں جی کاش کے ہم مر رہیں
دل جو اکتاتا ہے یارب رہ نہیں سکتے کہیں
کیا کریں جاویں کہاں گھر میں رہیں باہر رہیں
 
آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
میر تقی میر
نالۂ قید قفس سے چھوٹ اب اک دم نہیں
گوش گل سے لگتے تھے جا کے سو وہ موسم نہیں

ہم پہ کھینچی تیغ تو غیروں کو ٹک لگنے نہ دے
وے اگر ہوویں گے اس کے درمیاں تو ہم نہیں

بت برہمن کوئی نامحرم نہیں اللہ کا
ہے حرم میں شیخ لیکن میرؔ وہ محرم نہیں
***

غیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی
کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی

کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی

ہمیں تو باغ کی تکلیف سے معاف رکھو
کہ سیر و گشت نہیں رسم اہل ماتم کی

تنک تو لطف سے کچھ کہہ کہ جاں بلب ہوں میں
رہی ہے بات مری جان اب کوئی دم کی

گذرنے کو تو کج و واکج اپنی گذرے ہے
جفا جو ان نے بہت کی تو کچھ وفا کم کی

گھرے ہیں درد و الم میں فراق کے ایسے
کہ صبح عید بھی یاں شام ہے محرم کی

قفس میں میرؔ نہیں جوش داغ سینے پر
ہوس نکالی ہے ہم نے بھی گل کے موسم کی
ہم بھی آپ کے ایپ کی مدد سے یہی کر رہے تھے اور اگلا نمبر "موسم" کا ہی تھا :):)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ آپ برادران کا :)

اردو میں کئی ایک ایسے الفاظ عربی فارسی سے آئے ہیں جن کے اعراب یا حرکات اردو والوں نے اپنے مطابق ڈھال لیے ہیں۔ موسم کی مثال اوپر گزری، ایسا ہی ایک اور لفظ 'کافِر' ہے اصل عربی تو فے کی زیر کے ساتھ ہے لیکن غالب نے اپنی مشہور زمانہ غزل 'دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں' میں 'کافر' کو قافیہ میں استعمال کیا ہے یعنی کافَر باندھا ہے فے پر زبر کے ساتھ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک اور بات بھی ثابت ہوئی کہ پچھلے چند برسوں میں "سائنس" نے بہت ترقی کر لی ہے۔ جن دنوں کا یہ قضیہ ہے یعنی نو دس سال پہلے، اُس وقت ایک ایک سند کے لیے کئی کئی دن تک اور بعض اوقات ہفتوں تک کئی کئی دیوانوں کی گرد جھاڑ کر ورق گردانی کرنی پڑتی تھی اور محال تھا کہ ویب سے کچھ مل جائے اور اب بس منٹوں میں سارے کام ہو جاتا ہے :)
 
Top