بشیر بدر غزل - چاند ھاتھ میں بھر کر جگنوؤں کے سر کاٹو اور آگ پر رکھ دو (بشیر بدر)

چاند ھاتھ میں بھر کر جگنوؤں کے سر کاٹو اور آگ پر رکھ دو

قافلہ پرندوں کا جب زمیں پہ گر جائے چاقوؤں کے سر رکھ دو

میں بھی اک شجر ھی ھوں جس پہ آج تک شاید پھول پھل نہیں آئے

تم مری ھتیلی پر ایک رات چپکے سے برف کا ثمر رکھ دو

دھوپ کا ھرا بجرا آگ کے سمندر میں چل پڑا ھمیں لینے

نرم و گرم ھونٹوں سے بند ھوتی تتلیوں کے پر رکھ دو

چاھے کوئی موسم ھو دن گئی بہاروں کے پھر سے لوٹ آئیں گے

ایک پھول کی پتی اپنے ھونٹ پر رکھ کر میرے ھونٹ پر رکھ دو

میرا تن درختوں میں اس لیے جھلستا ھے سخت دھوپ سہتا ھے

کیا عجب تم آ نکلو اور میرے کاندھوں پر تھک کے اپنا سر رکھ دو

روز تار کٹنے سے رات کے سمندر میں شہر ڈوب جاتا ھے

اس لیے ضروری ھے اک دیا جلا کر تم دل کے طاق پر رکھ دو
 
Top