غزل ٹھوکر لگی تو کوئی سہارا نہیں ملا

شاہین فصیح ربانی

غزل

ٹھوکر لگی تو کوئی سہارا نہیں ملا
بھٹکے تو آسماں پہ ستارا نہیں ملا
اُٹھ آتے اُس کی بزم سے‘ تھا حوصلہ مگر
اُس کی طرف سے کوئی اشارہ نہیں ملا
مخدوش بادبان تو کشتی ہوئی تباہ
اور بحرِ زندگی کا کنارا نہیں ملا
تنہائیوں کے دشت میں گم ہو کے رہ گئے
کرتے بھی کیا کہ ساتھ تمہارا نہیں ملا
کروٹ ذرا جو وقت نے بدلی تو اے غنیم؛
پھر صفحہء حیات پہ دارا نہیں ملا
ہاتھوں سے ایک بار جو نکلا تو پھر فصیحؔ
وہ لمحہ زندگی میں دوبارہ نہیں ملا
گو طبع آزمائی تو کی ہے مگر فصیحؔ
مضمون کوئی خاص نیارا نہیں ملا​
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب غزل ہے فصیح صاحب

کروٹ ذرا جو وقت نے بدلی تو اے غنیم
پھر صفحۂ حیات پہ دارا نہیں ملا

واہ واہ، لاجواب۔
 

محمداحمد

لائبریرین
تنہائیوں کے دشت میں گم ہو کے رہ گئے
کرتے بھی کیا کہ ساتھ تمہارا نہیں ملا

بہت خوب فصیح صاحب،

اچھی غزل ہے۔
 
Top