فراز غزل: نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی

ایم اے راجا

محفلین
نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی

رمیدگی تھی تو پھر ختم تھا گریز اس پر
سپردگی تھی تو بے انتہا زیادہ تھی

غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شاید ہوا زیادہ تھی

وفا کی بات الگ پر جسے جسے چاہا
کسی میں حسن، کسی میں ادا زیادہ تھی

فراز اس سے وفا مانگتا ہے جاں کے عوض
جو سچ کہیں تو یہ قیمت ذرا زیادہ تھی
 

محمداحمد

لائبریرین
نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی

غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شاید ہوا زیادہ تھی

فراز اس سے وفا مانگتا ہے جاں کے عوض
جو سچ کہیں تو یہ قیمت ذرا زیادہ تھی

بہت خوب!
 

طارق شاہ

محفلین


غزلِ
proxy.php


نہ جانے ظرف تھا کم، یا انا زیادہ تھی
کُلاہ سر سے، تو قد سے قبا زیادہ تھی

رمِیدَگی تھی تو پھر ختم تھا گُریز اُس پر
سُپردَگی تھی، تو بے اِنتہا زیادہ تھی

غُرور اُس کا بھی کُچھ تھا جُدائیوں کا سبب
کُچھ اپنے سر میں بھی، شاید ہَوا زیادہ تھی

وفا کی بات الگ، پر جسے جسے چاہا!
کسی میں حُسن، کسی میں ادا زیادہ تھی

فراؔز اُس سے وفا مانگتا ہے، جاں کے عِوَض
جو سچ کہیں تو، یہ قیمت ذرا زیادہ تھی

احمد فرؔاز


 
Top