امیرالاسلام ہاشمی غزل: نکل سکتا نہیں جو آگیا اک بار چٹکی میں

محمد امین

لائبریرین
یہ غزل امیر الاسلام ہاشمی صاحب کے مزاحیہ مجموعے میں شامل ہے لیکن اس میں کچھ سنجیدگی بھی لگتی ہے، بہرحال اس کو یہیں مزاحیہ زمرے میں شامل کر رہا ہوں۔


وہ دن بھر چٹکیاں لیں یا اڑائیں سب کو چٹکی میں
نکل سکتا نہیں جو آگیا اک بار چٹکی میں

مَمِیرے کا کبھی سرمہ لگا کر اپنی آنکھوں میں
بریلی کا بسا لیتے ہیں وہ بازار چٹکی میں

وہ پہلے دل میں آتا تھا تو کچھ رک رک کے آتا تھا
مگر آنے لگا اب تو خیالِ یار چٹکی میں

وہ چٹکی پھر سفوف ایسا دیا کرتے ہیں چٹکی سے
کہ ہوجاتا ہے اچھا ان کا ہر بیمار چٹکی میں

بدن کی چُل نہیں ہوتی وہ چُل انگلی کی ہوتی ہے
اسی کے چُلچُلانے کا ہے اک اظہار چٹکی میں

کوئی لے زور کی چٹکی تو ہے انکار پوشیدہ
کوئی چپکے سے چٹکی لے تو ہے اقرار چٹکی میں

اک اپنے واسطے ہے دوسرا جس سے وہ ہاریں گے
وہ لے کر گھومتے ہیں آج کل دو ہار چٹکی میں

حنا آلود چٹکی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے
کسی نے جیسے بھر دی ہو مئے گلنار چٹکی میں

وہ چٹکی لے کے دیتا ہے محبت صرف چٹکی بھر
مزا جب تھا کہ مٹھی بھر کے دیتا پیار چٹکی میں

وہ چٹکی بھر کے کہتے ہیں سناؤ چٹکلا کوئی
میں چٹکی لے کے کہتا ہوں سنو اشعار چٹکی میں

یہ چٹکی کی کرامت ہے کہ بس چٹکی بجاتے ہی
ہمک کر آنے لگتا ہے خیالِ یار چٹکی میں


ریختہ ڈوٹ کوم پر یہ غزل نامکمل ہے، اور ایک شعر میں غلطی بھی ہے۔ میں نے مجموعے سے دیکھ کر نقل کی ہے۔
 
Top