میر غزل: منھ دھوتے اس کے آتا تو ہے اکثر آفتاب

منھ دھوتے اس کے آتا تو ہے اکثر آفتاب
کھاوے گا آفتابہ کوئی خودسر آفتاب

سر صدقے تیرے ہونے کی خاطر بہت ہے گرم
مارا کرے ہے شام و سحر چکر آفتاب

ہر خانہ کیوں نہ صبحِ جہاں میں ہو پُر فروغ
پھرتا ہے جھانکتا اسی کو گھر گھر آفتاب

تجرید کا فراغ ہے یک دولتِ عظیم
بھاگے ہے اپنے سائے سے بھی خوشتر آفتاب

نازک مزاج ہے تو کہیں گھر سے مت نکل
ہوتا ہے دوپہر کے تئیں سر پر آفتاب

پیدا ہے روز مشرقِ نو کی نمود سی
آئے ہے کوئے یار سے بچ بچ کر آفتاب

ہو پست اس کے نور کا زیرِ زمیں گیا
ہر چند سب ستاروں سے تھا برتر آفتاب

اس رخ کی روشنی میں نہ معلوم کچھ ہوا
مہ گم کدھر ہوا ہے گیا کیدھر آفتاب

کس زور کش کی قوسِ قزح ہے کمان پاک
جس کی اٹھا سکا نہ کبھو سیسر آفتاب

روشن ہے یہ کہ خوف ہے اس غصہ ور کا میرؔ
نکلے ہے صبح کانپتا جو تھر تھر آفتاب

***
میر تقی میرؔ
 
آفتابی موسم میں آفتابی غزل کے لیے خصوصی شکریہ تابش بھیا! :sun:
شکریہ جناب.
وجہ یہی بنی ہے.
سورج کی ایک تصویر لی تھی. اس کے لیے شعر ڈھونڈ رہا تھا، یہ غزل مل گئی.
تصویر پر یہ شعر لگا دیا. :)
نازک مزاج ہے تو کہیں گھر سے مت نکل
ہوتا ہے دوپہر کے تئیں سر پر آفتاب
 
Top