غزل - زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں‌ - کرشن بہاری نور لکھنوی

محمد وارث

لائبریرین
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

سچ گھٹے یا بڑے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں

زندگی، موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں

جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں

اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نُور سنسار سے گیا ہی نہیں

(کرشن بہاری نُور لکھنوی)
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب وارث بھائی ۔۔ ! کیا غزل شئیر کی ہے ۔ اس غز ل کا یہ شعر تو کئی عرصے تک میرے دستخط کی زینت بنا رہا ۔

اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں

شکریہ وارث بھائی ۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ وارث صاحب! کچھ برس قبل کرشن بہاری نور سے ان کی یہ غزل انہی کی زبانی ایک مشاعرے میں سننے کا اتفاق ہوا تھا اور کیا سماں باندھ دیا تھا موصوف نے اپنے منفرد انداز کے ساتھ۔ ویسے شاید یہ غزل جگجیت نے گائی بھی ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

سچ گھٹے یا بڑے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں

اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصّے میں کچھ بچا ہی نہیں

زندگی، موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستا ہی نہیں

جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں

اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نُور سنسار سے گیا ہی نہیں

(کرشن بہاری نُور لکھنوی)


زبردست۔۔۔ بہت شکریہ وارث :)
 

نوید صادق

محفلین
واہ! وارث بھائی۔
کیا غزل پیش کی ہے۔
اور یہ مصرعہ تو

"نُور سنسار سے گیا ہی نہیں"

کیا کہنے ہیں اس کے
 
Top