راحت اندوری غزل- زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں -راحت اندوری

غزل

زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں
میرے کیسہ میں مری وفائیں رہ گئیں

نوجواں بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اڑے
گاؤں کی جھولی میں کچھ مجبور مائیں رہ گئیں

بُجھ گیا وحشی کبوتر کی ہوس کا گرم خون
نرم بستر پر تڑپتی فاختائیں رہ گئیں

ایک اک کر کے ہوئے رخصت مرے کنبے کے لوگ
گھر کے سناٹے سے ٹکراتی ہوائیں رہ گئیں

بادہ خانے، شاعری، نغمے، لطیفے، رتجگے
اپنے حصے میں یہی دیسی دوائیں رہ گئیں

راحت اندوری​
 
بادہ خانے، شاعری، نغمے، لطیفے، رتجگے
اپنے حصے میں یہی دیسی دوائیں رہ گئیں

بھئی واہ ! کیا کہنے راحت اندوری صاحِب کے
 
Top