غزل - در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا

غزل - در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا

شاہین فصیحؔ ربانی

شاید یہی جنوں کے ہیں آثار دیکھنا
’’در دیکھنا کبھی‘ کبھی دیوار دیکھنا‘‘

رکھنا قدم وہ اپنا جوانی کے چاند پر
عشقِ بتاں میں دل کو گرفتار دیکھنا

پانا نہیں نجات ابھی ایک رنج سے
اک اور غم سے زیست کو دوچار دیکھنا

ساحل پہ اک گھروندا بنانا وہ ریت سے
پھر خواب ہی میں خواب کو مسمار دیکھنا

سورج سی تاب چاہیے‘ چاہے اگر کوئی
یہ کائناتِ ثابت و سیار دیکھنا

گزرا ہے رات کیسی قیامت سے میرا گھر
بے چین ہو کے صبح کے اخبار دیکھنا

چہرے سے بڑھ کے حسن ہے کردار کا عزیز
چہرہ کبھی نہ دیکھنا‘ کردار دیکھنا

یہ بھی پتنگ اڑانے سے پہلے کی شرط ہے
رُخ دیکھنا ہواؤں کی رفتار دیکھنا

دیکھیں گے پھر بھی کیا پسِ دیوار ہم فصیحؔ
ممکن اگر ہوا‘ پسِِ دیوار دیکھنا
 
Top