غزل : جنگل میں بس ایک ہی رستہ جس پر بیٹھا کالا ناگ : از : محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن

جنگل میں بس ایک ہی رستہ جس پر بیٹھا کالا ناگ

پاؤں تو ہو گئے من من بھر کے، چھیڑو بین پہ کوئی راگ

جن کو ملی ہیں دل کی مرادیں ، اُن کی قسمت اُن کا نصیب
میں نے اگر کچھ بھی نہ پایا ، میری قسمت میرے بھاگ

کوئی ہے ناخوش محل میں رہ کے، گھی کے نوالے کھا کر بھی
میں تو خوش ہوں گرچہ ملی ہے سوکھی روٹی ، باسی ساگ

چہرے پر نہ جاؤ کسی کے، کلجگ ہے ، ہشیار رہو
جن کو سمجھیں سیدھے سادھے، نکلیں وہ اتنے ہی گھاگ

چین نہیں ہے مجھ کو کسی کل ، جاگ سکوں نہ سو ہی سکوں
کاش کوئی سمجھائے مجھ کو ، تن میں بھری ہے کیسی آگ

دور رہے ساحل سے جتنی، اُتنی ہی منہ زور رہے
موج جو ساحل پر آجائے، کچھ بھی نہیں پھر، جھاگ ہی جھاگ

وقت کے سر پٹ گھوڑے پر ہم بیٹھے کتنے بےبس ہیں
نہ ہی گھوڑا اپنے بس میں، نہ ہی ہاتھ میں اُس کی باگ

صبح کے ہیں آثار ہویدا ، ڈوب چلے ہیں تارے بھی
کھوٹی ہو جائے نہ منزل ، ’’جاگ مسافر اب تو جاگ‘‘

 
مدیر کی آخری تدوین:
آج اردو محفل پر اپنی اس غزل کودوبارہ دیکھتےہوئے خیال آیا کہ اس کو ٹائپ کرتے ہوئے مجھ سے ایک سہو ہو گئی ہے۔ جب کسی دوسرے شاعر کا شعر یا مصرع استعمال کیا جائے تو اُسے کوٹیشن مارکس کے اندر لکھتے ہیں۔ ٹائپنگ کے دوران مجھے بالکل یاد نہیں رہا اور میں نے ناصر کاظمی کے جس مصرع کو استعمال کیا تھا اس پر کوٹیشن مارکس نہیں ڈالے۔ آج اس غزل کو دوبارہ پڑھا تو اس سہو کا احساس ہوا اور بڑی شرمندگی ہوئی کیونکہ اس طرح تو میں ادبی بددیانتی کا مرتکب ہو جاؤں گا۔ ادارے کے منتظمین سے درخواست ہے کہ " بیٹر لیٹ دین نیور " کے اصول کے تحت تصحیح فرمادیں یعنی آخری شعر میں جاگ مسافر اب تو جاگ پر کوٹیشن مارکس لگا کر اس طرح کردیں۔
صبح کے ہیں آثار ہویدا ڈوب چلے ہیں تارے بھی
کھوٹی ہو جائے نہ منزل " جاگ مسافر اب تو جاگ"
اس زحمت کے لیے پیشگی شکریہ قبول فرمایئے۔
 
آج اردو محفل پر اپنی اس غزل کودوبارہ دیکھتےہوئے خیال آیا کہ اس کو ٹائپ کرتے ہوئے مجھ سے ایک سہو ہو گئی ہے۔ جب کسی دوسرے شاعر کا شعر یا مصرع استعمال کیا جائے تو اُسے کوٹیشن مارکس کے اندر لکھتے ہیں۔ ٹائپنگ کے دوران مجھے بالکل یاد نہیں رہا اور میں نے ناصر کاظمی کے جس مصرع کو استعمال کیا تھا اس پر کوٹیشن مارکس نہیں ڈالے۔ آج اس غزل کو دوبارہ پڑھا تو اس سہو کا احساس ہوا اور بڑی شرمندگی ہوئی کیونکہ اس طرح تو میں ادبی بددیانتی کا مرتکب ہو جاؤں گا۔ ادارے کے منتظمین سے درخواست ہے کہ " بیٹر لیٹ دین نیور " کے اصول کے تحت تصحیح فرمادیں یعنی آخری شعر میں جاگ مسافر اب تو جاگ پر کوٹیشن مارکس لگا کر اس طرح کردیں۔
صبح کے ہیں آثار ہویدا ڈوب چلے ہیں تارے بھی
کھوٹی ہو جائے نہ منزل " جاگ مسافر اب تو جاگ"
اس زحمت کے لیے پیشگی شکریہ قبول فرمایئے۔
تدوین کردی ہے
 

ندیم مراد

محفلین
غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن

جنگل میں بس ایک ہی رستہ جس پر بیٹھا کالا ناگ

پاؤں تو ہو گئے من من بھر کے، چھیڑو بین پہ کوئی راگ

جن کو ملی ہیں دل کی مرادیں ، اُن کی قسمت اُن کا نصیب
میں نے اگر کچھ بھی نہ پایا ، میری قسمت میرے بھاگ

کوئی ہے ناخوش محل میں رہ کے، گھی کے نوالے کھا کر بھی
میں تو خوش ہوں گرچہ ملی ہے سوکھی روٹی ، باسی ساگ

چہرے پر نہ جاؤ کسی کے، کلجگ ہے ، ہشیار رہو
جن کو سمجھیں سیدھے سادھے، نکلیں وہ اتنے ہی گھاگ

چین نہیں ہے مجھ کو کسی کل ، جاگ سکوں نہ سو ہی سکوں
کاش کوئی سمجھائے مجھ کو ، تن میں بھری ہے کیسی آگ

دور رہے ساحل سے جتنی، اُتنی ہی منہ زور رہے
موج جو ساحل پر آجائے، کچھ بھی نہیں پھر، جھاگ ہی جھاگ

وقت کے سر پٹ گھوڑے پر ہم بیٹھے کتنے بےبس ہیں
نہ ہی گھوڑا اپنے بس میں، نہ ہی ہاتھ میں اُس کی باگ

صبح کے ہیں آثار ہویدا ، ڈوب چلے ہیں تارے بھی
کھوٹی ہو جائے نہ منزل ، ’’جاگ مسافر اب تو جاگ‘‘

واہ صاحب
بہت خوب
بہت اچھی غزل فرمائی آپ نے داد قبول کیجئے
اس شعر پر غالب کا یہ شعر یاد آگیا
وقت کے سر پٹ گھوڑے پر ہم بیٹھے کتنے بےبس ہیں نہ ہی گھوڑا اپنے بس میں، نہ ہی ہاتھ میں اُس کی باگ
غالب کا شعر ہے
رو میں ہے رخت عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پہ ہیں نا پا ہیں رکاب میں
خوش رہیں لکھتے رہیں
وسلام
 
واہ صاحب
بہت خوب
بہت اچھی غزل فرمائی آپ نے داد قبول کیجئے
اس شعر پر غالب کا یہ شعر یاد آگیا
وقت کے سر پٹ گھوڑے پر ہم بیٹھے کتنے بےبس ہیں نہ ہی گھوڑا اپنے بس میں، نہ ہی ہاتھ میں اُس کی باگ
غالب کا شعر ہے
رو میں ہے رخت عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پہ ہیں نا پا ہیں رکاب میں
خوش رہیں لکھتے رہیں
وسلام
بھائی ندیم مراد صاحب۔ غزل کی پسندیدگی پر تہہ دل سے مشکور ہوں ۔ بھائی غالب جیسے بڑے لوگ ہی ہیں جن کی بنا پر ہم جیسے چھوٹے لوگ ٹوٹا پھوٹا کچھ کہہ لیتے ہیں ۔ ان جیسے لوگوں کے پاؤں کی دھول بھی ہمارے لیے کحل الجواہر سے کم نہیں ۔آپ جیسے علم دوست حضرات کی طرف سے حوصلہ افزائی ہی ہمارا سرمایہ ہوتا ہے ۔ بہت شکریہ
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ۔

کیا ہی اچھی غزل ہے۔

خوشی ہوئی کہ آپ کوٹیشن مارک لگانا بھول گئے ورنہ شاید ہم ایسی اچھی غزل سے محروم رہ جاتے۔

ایک ایک شعر پر بے ساختہ منہ سے واہ نکلی۔

شاد آباد رہیے۔
 
سبحان اللہ۔

کیا ہی اچھی غزل ہے۔

خوشی ہوئی کہ آپ کوٹیشن مارک لگانا بھول گئے ورنہ شاید ہم ایسی اچھی غزل سے محروم رہ جاتے۔

ایک ایک شعر پر بے ساختہ منہ سے واہ نکلی۔

شاد آباد رہیے۔
محمداحمد بھائی ۔ غزل کی پسندیدگی پر بے انتہا مشکور ہوں ۔ کافی دنوں بعد اردو محفل پر آیا ہوں اس لیے آپ کو جواب تاخیر سے مل رہا ہے بہت معذرت خواہ ہوں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
بہت خوب جناب!
دور رہے ساحل سے جتنی، اُتنی ہی منہ زور رہے
موج جو ساحل پر آجائے، کچھ بھی نہیں پھر، جھاگ ہی جھاگ
 
بہت خوب جناب!
دور رہے ساحل سے جتنی، اُتنی ہی منہ زور رہے
موج جو ساحل پر آجائے، کچھ بھی نہیں پھر، جھاگ ہی جھاگ
محترم جناب آوازِ دوست صاحب۔ میرے بھائی حوصلہ افزائی کے لیے بہت بہت شکریہ قبول فرمایئے۔
 
Top