غزل - جب سمندر میں ہوا تیز ہوئی

السلام علیکم!
آپ کی خدمت میں پیش ہے ایک تازہ غزل

غزل

جب سمندر میں ہوا تیز ہوئی
شورشِ سیلِ بلا تیز ہوئی

نہ رہی بادِ صبا‘ بادِ صبا
اپنی رو سے جو ذرا تیز ہوئی

کھو گیا وقت تو اے مری زیست
اب ہوئی تیز تو کیا تیز ہوئی

بڑھی تنہائی‘ بڑھا سناّٹا
اور دھڑکن کی صدا تیز ہوئی

رات آئی تو کھلا اس کا ہنر
نکہتِ زلفِ دوتا تیز ہوئی

پل میں بیمار کے آزار گئے
زہر ملنے سے دوا تیز ہوئی

حوصلہ حرفِ تسلی نے دیا
اور بھی آہ و بکا تیز ہوئی

دل نے اخلاص کے در باز کیے
جودتِ مہر و وفا تیز ہوئی

یہ زمیں ہاتھ لگی خوب فصیحؔ
تابشِ فکرِ رسا تیز ہوئی

شاہین فصیحؔ ربانی
 

زیف سید

محفلین
بہت زبردست غزل ہے، فصحیح صاحب۔ داد حاضر ہے۔ زمین واقعی بہت اچھوتی اور دل کش ہے۔ درجِ ذیل اشعار خاص طور پر پسند آئے:

!نہ رہی بادِ صبا‘ بادِ صبا
اپنی رو سے جو ذرا تیز ہوئی

کھو گیا وقت تو اے مری زیست
اب ہوئی تیز تو کیا تیز ہوئی

بڑھی تنہائی‘ بڑھا سناّٹا
اور دھڑکن کی صدا تیز ہوئی


زیف
 
Top