فیض غزل - بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌نہیں ‌دیتے - فیض

محمد نعمان

محفلین
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌نہیں ‌دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں‌نہیں ‌دیتے

دردِ شبِ ہجراں‌کی جزا کیوں‌ نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں ‌نہیں دیتے

ہاں ‌نکتئہ ورولاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں‌نغمہ گروساز‌صدا کیوں‌نہیں‌دیتے

مِٹ‌جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں‌نہیں‌دیتے

پیمانِ جنوں‌ہاتھوں‌کو شرمائے گا کب تک
دل والو گریباں‌کا پتہ کیوں‌نہیں‌دیتے

بربادئ دل جبر نہیں‌فیضؔ‌کسی کا
وہ دشمنِ جاں‌ہے تو بُھلا کیوں‌نہیں‌دیتے
 

شمشاد

لائبریرین
یہ غزل فیض ہے یا غذل فیض ؟ عنوان صحیح کر لیں۔

فیض کی غزل شیئر کرنے کا شکریہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ نے تو بہت جلد اچھا لکھنا سیکھ لیا ہے۔ بس چند دن اور، پھر بلکل صحیح لکھنے لگ جائیں گے۔ اردو محفل میں آتے رہیے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں ‌نہیں ‌دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں ‌نہیں ‌دیتے

دردِ شبِ ہجراں‌کی جزا کیوں‌ نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں ‌نہیں دیتے

ہاں ‌نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں‌نغمہ گرو ساز‌صدا کیوں‌نہیں‌ دیتے

مِٹ‌جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں ‌نہیں ‌دیتے

پیمانِ جنوں‌ ہاتھوں ‌کو شرمائے گا کب تک
دل والو گریباں‌ کا پتہ کیوں ‌نہیں ‌دیتے

بربادئ دل جبر نہیں‌ فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں‌ ہے تو بُھلا کیوں‌ نہیں ‌دیتے

بہت خوب!!!
 
Top