غزل برائے تنقید و تبصرہ و اصلاح

ایک اور غزل کے ساتھ حاضر ہوں خاکسار آپ کے قیمتی مشوروں کا منتظرہے


دلِ نادان تیری بےکلی دیکھی نہیں جاتی
اب اس حالت میں کوئی بھی خوشی دیکھی نہیں جاتی
کہاں گم ہوگیا آنچل حیاکاان سروں سے آج
ہمیں ملت کی یہ بےپردگی دیکھی نہیں جاتی
مجھےڈرہےنظرلگ جائے نہ ظالم زمانےکی
زمانےسےہماری عاشقی دیکھی نہیں جاتی
جہاںپردیکھتی ہیں اورنگاہیں اک سواءمیرے
وہاں تیری مجھے موجودگی دیکھی نہیں جاتی
حسدکی آگ میں جل کرہوئےجاتےہیںوہ برباد
ہمارےحاسدوںسےخوشی دیکھی نہیں جاتی
مصیبت میںمددکرناعدوکی بھی جہاں والوں
مصیبت کی گھڑی میںدشمنی دیکھی نہیں جاتی
چھلک جاتےہیں آنسوآنکھہ سےماںباپ کےدانش
اُنھیںبیٹی سےدوری کی گھڑی دیکھی نہیں جاتی
اسراراحمد دانش​
 
اساتذہ اکرام جناب الف عین صاحب ' جناب محمد یعقوب آسی صاحب ' جناب فارقلیط رحمانی صاحب غزل آپ کی قیمتی مشوروں کی منتظر ہے
 

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار تو درست ہیں دانش، بس ان کو دیکھ لیں

کہاں گم ہوگیا آنچل حیاکاان سروں سے آج
ہمیں ملت کی یہ بےپردگی دیکھی نہیں جاتی

÷÷ملت کی بے پردگی یا ملت کی عورتوں کی؟ یہاں محض ’عورت‘ کر دیں۔ اس صورت میں پہلا مصرع بھی تھوڑا بدلنا پڑے گا
کہاں گم ہوگیا آنچل حیا کا اس کےسر سے آج
مجھےڈرہےنظرلگ جائے نہ ظالم زمانےکی
زمانےسےہماری عاشقی دیکھی نہیں جاتی
÷÷یہاں ’نہ‘ ’نا‘ کی طرح تقطیع ہو رہا ہے جسے درست نہیں کہا کاتا، اگرچہ کچھ جدید اساتذہ اسے درست مان لیتے ہیں۔ لیکن یہاں تمہارے مصرع میں میں بھی اس کی جگہ ‘گی‘ سے مطلب زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ یعنی
مجھےڈرہےنظرلگ جائے گی ظالم زمانےکی


جہاںپردیکھتی ہیں اورنگاہیں اک سواءمیرے
وہاں تیری مجھے موجودگی دیکھی نہیں جاتی

÷÷پہلا مصرع چست اور رواں نہیں۔ ’اور‘ کا ’اُر‘ کیا جانا بھی اچھا نہیں۔
اسے یوں کیا جا سکتا ہے، مثلاً
جہاں میرے سوا اوروں کی نظریں دیکھ لیں تجھ کو
وہاں مجھ سے تری موجودگی۔۔۔۔
حسدکی آگ میں جل کرہوئےجاتےہیںوہ برباد
ہمارےحاسدوںسےخوشی دیکھی نہیں جاتی

÷÷دوسرا مصرع بحر سے خارج ہو گیا ہے۔ یہاں حاسدوں کے علاوہ کوئی اور لفظ استعمال کیا جائے، کہ حسد تو پہلے مصرع میں آ ہی گیا ہے۔
جیسے
رقیبوں سے ہماری کچھ خوشی۔۔۔
ندیموں سے۔۔۔
وغیرہ
 
باقی اشعار تو درست ہیں دانش، بس ان کو دیکھ لیں

کہاں گم ہوگیا آنچل حیاکاان سروں سے آج
ہمیں ملت کی یہ بےپردگی دیکھی نہیں جاتی

÷÷ملت کی بے پردگی یا ملت کی عورتوں کی؟ یہاں محض ’عورت‘ کر دیں۔ اس صورت میں پہلا مصرع بھی تھوڑا بدلنا پڑے گا
کہاں گم ہوگیا آنچل حیا کا اس کےسر سے آج
مجھےڈرہےنظرلگ جائے نہ ظالم زمانےکی
زمانےسےہماری عاشقی دیکھی نہیں جاتی
÷÷یہاں ’نہ‘ ’نا‘ کی طرح تقطیع ہو رہا ہے جسے درست نہیں کہا کاتا، اگرچہ کچھ جدید اساتذہ اسے درست مان لیتے ہیں۔ لیکن یہاں تمہارے مصرع میں میں بھی اس کی جگہ ‘گی‘ سے مطلب زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ یعنی
مجھےڈرہےنظرلگ جائے گی ظالم زمانےکی


جہاںپردیکھتی ہیں اورنگاہیں اک سواءمیرے
وہاں تیری مجھے موجودگی دیکھی نہیں جاتی

÷÷پہلا مصرع چست اور رواں نہیں۔ ’اور‘ کا ’اُر‘ کیا جانا بھی اچھا نہیں۔
اسے یوں کیا جا سکتا ہے، مثلاً
جہاں میرے سوا اوروں کی نظریں دیکھ لیں تجھ کو
وہاں مجھ سے تری موجودگی۔۔۔ ۔
حسدکی آگ میں جل کرہوئےجاتےہیںوہ برباد
ہمارےحاسدوںسےخوشی دیکھی نہیں جاتی

÷÷دوسرا مصرع بحر سے خارج ہو گیا ہے۔ یہاں حاسدوں کے علاوہ کوئی اور لفظ استعمال کیا جائے، کہ حسد تو پہلے مصرع میں آ ہی گیا ہے۔
جیسے
رقیبوں سے ہماری کچھ خوشی۔۔۔
ندیموں سے۔۔۔
وغیرہ
استاد محترم آپ کا بہت بہت شکریہ۔
بعد اصلاح کے غزل پیش ہے


دلِ نادان تیری بےکلی دیکھی نہیں جاتی
اب اس حالت میں کوئی بھی خوشی دیکھی نہیں جاتی
کہاں گم ہوگیا آنچل حیاکااس کے سر سے آج
ہمیں عورت کی یہ بےپردگی دیکھی نہیں جاتی
مجھےڈرہےنظرلگ جائےگی ظالم زمانےکی
زمانےسےہماری عاشقی دیکھی نہیں جاتی
جہاں میرے سوااوروں کی نظریں دیکھ لیں تجھ کو
وہاں مجھ سے تری موجودگی دیکھی نہیں جاتی
حسدکی آگ میں جل کرہوئےجاتےہیںوہ برباد
رقیبوں سےہماری یہ خوشی دیکھی نہیں جاتی
مصیبت میںمددکرناعدوکی بھی جہاں والوں
مصیبت کی گھڑی میںدشمنی دیکھی نہیں جاتی
چھلک جاتےہیں آنسوآنکھہ سےماںباپ کےدانش
اُنھیںبیٹی سےدوری کی گھڑی دیکھی نہیں جاتی
 
Top