غزل برائے تنقید و اصلاح "رات ہے اور خمار باقی ہے"

رات ہے اور خمار باقی ہے
شدّتِ انتظار باقی ہے

بال اُلجھے ہوئے سے رہتے ہیں
نشّہِ زلفِ یار باقی ہے


"مرگئے ہیں خدا سبھی" لیکن
خوئے شب زندہ دار باقی ہے

مقتلِ عشق ہوگیا ویراں
پھر بھی اک شہسوار باقی ہے

آج کی رات روئے کافر پر
اک انوکھا نکھار باقی ہے

بزم، ساقی، شراب کچھ نہ رہا
پھر بھی اک بادہ خوار باقی ہے

منزلیں مٹ گئی ہیں آسی کی
خواہشوں کا غبار باقی ہے

محمد ارتضیٰ آسی

 
"مرگئے ہیں خدا سبھی" لیکن
خوئے شب زندہ دار باقی ہے

"مرگئے ہیں اے خدا سبھی" لیکن
خوئے شب زندہ دار باقی ہے


یہ اصلاح نہیں ہے بس ذرا تاثر غلط ملتا ہے
 
"مرگئے ہیں خدا سبھی" لیکن
خوئے شب زندہ دار باقی ہے

"مرگئے ہیں اے خدا سبھی" لیکن
خوئے شب زندہ دار باقی ہے


یہ اصلاح نہیں ہے بس ذرا تاثر غلط ملتا ہے
جناب یہاں تاثر غلط دینا ہے مراد ہے!
شاعر نطشے کے فلسفے "دی ڈیتھ آف گاڈ" کو استعارہ بنا کر پیش کر رہا ہے!
 
جناب یہاں تاثر غلط دینا ہے مراد ہے!
شاعر نطشے کے فلسفے "دی ڈیتھ آف گاڈ" کو استعارہ بنا کر پیش کر رہا ہے!



جناب آپ درست فرما رہے ہیں، بس مجھے اچھا نہیں لگااس لئے لکھ دیا۔ ویسے اگر کوئی غلط لفظ، یا گناہ کے الفاظ استعمال کرے تو انہیں دہرانا مجھے پسند نہیں، میںنے نقص نہیں نکالا تھا۔ اپنی سمجھ میں جوآیا کہہ دیا
 
Top