غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
السلام علیکم ۔۔محفلین ایک غزل پیش ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے ۔۔۔
اس کے جبر و ستم سے واقف ہیں
ہم زمانے کے غم سے واقف ہیں
تیر و تلوار بم سے نا واقف
ہاں مگر ہم قلم سے واقف ہیں
کون سی چال کب چلے گا تو
ہم ترے ہر قدم سے واقف ہیں
کوئ ہم کو سمجھ نہیں سکتا
صرف ہم ہیں جو ہم سے واقف ہیں
عشق کرنا ہے شوق سے کر لیں
یہ بتائیں صنم سے واقف ہیں؟
سرخ عارض بھی ہم نے دیکھا ہے
زلف کے پیچ و خم سے واقف ہیں
ہجر کی رات کیسے کٹتی ہے؟
سچ بتائیں قسم سے واقف ہیں
اپنے کردار میں کمی ہوگی
ہم خدا کے کرم سے واقف ہیں
کوئ ہوتا تو ٹوٹ ہی جاتا
نور ہم جس الم سے واقف ہیں
 

الف عین

لائبریرین
واہ ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔ ایک دو جگہ اوقاف وغیرہ کا مسئلہ ہے۔
تیر و تلوار بم؟
کو تیر، تلوار، بم کر دیں۔ محض بم کے ساتھ واو عطف کا ہونا اور نہ ہونا دونوں پسندیدہ نہیں۔

سرخ عارض ۔۔۔ دیکھا ہے
یہ تو وہی بات ہو گئی کہ محترمہ آپ کا دایاں کان بہت خوب صورت ہے۔ ‘دیکھے ہیں‘ کر دو،
اور
سچ بتائیں قسم سے واقف ہیں
کو درست رموز و اوقاف کے ساتھ
سچ بتائیں، قسم سے۔ ۔۔ واقف ہیں؟
باقی اشعار درست ہیں
 
Top