غزل برائے اصلاح

کاشف اختر

لائبریرین
محترم سر الف عین اور بھائی راحیل فاروق سے اصلاح کی درخواست ہے



راہ میں مرے آگے جب وہ خوبرو آئے
دست میں لئے خنجر گویا کہ عدو آئے

آئے کیا نشہ ساقی! جز تری نگاہوں کے
لاکھ جام جم آئے لاکھ گو سبو آئے

پھرتے ہیں لئے خنجر,کوچے میں ترے ہمدم
ڈرتے ہیں پہ آخر کیوں سامنے جوتو آئے

جان لے اگر واعظ ، رمز جرات رندی
لے کے کاسہ میخانے بہر جستجو آئے

مت کرو طبیبو! تم زخم ِدل کا کچھ درماں
کاش خود مرا قاتل درپئے رفو آئے

فکر موج غم کیا ہو اس سفینۂ دل کو
یادوں کو لب ساحل پہلے ہی ڈبو آئے

مانگئے ہی اب کیوں کر تاب ضبط غم کاشف
اشک ہی وہ آخر کیا جوکہ بے لہو آئے
 

الف عین

لائبریرین
بظاہر بحر و اوزان درست ہیں، کوئی خامی نظر نہیں آ رہی۔ لیکن ،مضامین کے لحاظ سے کوئی خاص بات محسوس نہیں ہو رہی۔
راہ میں مرے آگے جب وہ خوبرو آئے
دست میں لئے خنجر گویا کہ عدو آئے
۔÷÷بڑا ظالم محبوب ہے تو اسے گولی مارو!!!

آئے کیا نشہ ساقی! جز تری نگاہوں کے
لاکھ جام جم آئے لاکھ گو سبو آئے
÷÷÷ جام جم؟ محض جام کا مقام ہے۔ ’گو سبوُ بھی اچھا نہیں گ رہا۔

پھرتے ہیں لئے خنجر,کوچے میں ترے ہمدم
ڈرتے ہیں پہ آخر کیوں سامنے جوتو آئے
÷÷÷اس کا مضمون بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ کوچے کی ’ے‘ کا اسقاط بھی تکنیکی خامی ہے۔

جان لے اگر واعظ ، رمز جرات رندی
لے کے کاسہ میخانے بہر جستجو آئے
÷÷ٹھیک

مت کرو طبیبو! تم زخم ِدل کا کچھ درماں
کاش خود مرا قاتل درپئے رفو آئے
÷÷÷ در پئے رفو؟ درست نہیں لگ رہا۔

فکر موج غم کیا ہو اس سفینۂ دل کو
یادوں کو لب ساحل پہلے ہی ڈبو آئے
÷÷÷اس کے بھی خیال تک میں نہیں پہنچ سکا۔

مانگئے ہی اب کیوں کر تاب ضبط غم کاشف
اشک ہی وہ آخر کیا جوکہ بے لہو آئے
÷÷درست
 

کاشف اختر

لائبریرین
ترمیم کے بعد حاضر ہے


راہ میں مرے آگے جب وہ خوبرو آئے
دست میں لئے خنجر گویا کہ عدو آئے

اتنی بات کی خاطرمیرے غم کی شہرت ہے
بہر پرسش احوال کاش وہ عدو آئے

جان لے اگر واعظ ، رمز جرات رندی
لے کے کاسہ میخانے بہر جستجو آئے

قیس یا کہ لیلی ہو ہیر ہو کہ رانجھا ہو
حال پر مرے سب کی چشم سے لہو آئے

توڑ کر خم و ساغر، منتظر ہوں اب تیرا
ساقیا! مری توبہ توڑنے کو تو آئے

تاحیات ہم اس کی رہگزر رہے تکتے
کاش وقت مرگ ہی وہ بہر گفتگو آئے

شیخ ِکعبہ رندوں سے بڑھ کے بے ادب نکلے
میکدے میں جو تنہا آپ بے وضو آئے

مانگئے ہی اب کیوں کر تاب ضبط غم کاشف
اشک ہی وہ آخر کیا جوکہ بے لہو آئے


بھائی راحیل فاروق سر الف عین
 

الف عین

لائبریرین
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں۔ بس یہ بحر میں نہیں آتا۔
کاش وقت مرگ ہی وہ بہر گفتگو آئے
’مرگ ہی‘ کی ہ کا وصال نہیں کیا جا سکتا۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں۔ بس یہ بحر میں نہیں آتا۔
کاش وقت مرگ ہی وہ بہر گفتگو آئے
’مرگ ہی‘ کی ہ کا وصال نہیں کیا جا سکتا۔


متفق ! یہ شعر میں نے خارج کرنا تھا ! نظر ثانی میں مجھے اس کا خیال بھی تھا مگر پھر یاد نہ رہا ۔ ویسے اس کا متبادل یہ ہوسکتا ہے

کاش وہ دم رخصت بہر گفتگو آئے


لیکن یہ واضح نہیں ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے اگر یہ چل سکتا ہے تو بہتر ورنہ اس شعر کو خارج کردینے کا ارادہ ہے
 

الف عین

لائبریرین
ٹھیک ہے نیا مصرع۔ شعز شامل کر سکتے ہو۔
عدو قافیے کے دو متصل اشعار میں فاصلہ کر دو۔ آیک اور شعر کو بیچ میں لا کر
 

کاشف اختر

لائبریرین
ایک بار پھر سے اشعار کی ترتیب کے ساتھ پیش خدمت ہے سر الف عین کی نظر کا منتظر ہوں




راہ میں مرے آگے جب وہ خوبرو آئے
دست میں لئے خنجر گویا کہ عدو آئے

قیس یا کہ لیلی ہو ہیر ہو کہ رانجھا ہو
حال پر مرے سب کی چشم سے لہو آئے

جان لے اگر واعظ ، رمز جرات رندی
لے کے کاسہ میخانے بہر جستجو آئے

تاحیات ہم اس کی راہ یوں رہے تکتے
کاش وہ دم رخصت بہر گفتگو آئے

شیخ ِکعبہ رندوں سے بڑھ کے بے ادب نکلے
میکدے میں جو تنہا آپ بے وضو آئے

اتنی بات کی خاطرمیرے غم کی شہرت ہے
بہر پرسش احوال کاش وہ عدو آئے

توڑ کر خم و ساغر، منتظر ہوں اب تیرا
ساقیا! مری توبہ توڑنے کو تو آئے

مانگئے ہی اب کیوں کر تاب ضبط غم کاشف
اشک ہی وہ آخر کیا جوکہ بے لہو آئے


 
Top