غزل برائے اصلاح و تصحیح

ہم پھول نہ خوشبوئیں نہ زر دیکھ رہے ہیں
بس حسن مکمل سی" نظر" دیکھ رہے

ہم ہی ہیں جو بے خوف چلے راہ محبت
ورنہ تو سبھی صرف ڈگر دیکھ رہے ہیں

ہم ہیں کہ نگاہیں نہیں ہٹتیں ان سے
اور وہ ہیں خدا جانے کدھر دیکھ رہے ہیں

اس فن سے جگر چاک کیا تم نے ہمارا
حیرت سے سبھی زخم جگر دیکھ رہے ہیں

اب تو تو نہیں یاد ہی تیری ہے سہارا
سو آج تری راہ گزر دیکھ رہے ہیں

لگتا ہے وہ مہ رو کہیں جانے کو اٹھا ہے
عشاق میں آثار سفر دیکھ رہے ہیں

تقدیر کا شکوہ وہ بھی محبوب کے در پر
آداب بجا شور نہ کر ,دیکھ رہے ہیں

مٹ جائے غم یار اگر صفحۂ دل سے
ہوتی نہیں پھر سکھ سے بسر دیکھ رہے ہیں

لگتا ہے کہ مل جائیگی منزل تری شامی
مقتل میں صنم تیغ و سپر دیکھ رہے ہیں
 
Top