غزل برائے اصلاح "وہ اپنے پاس بُلائے تو کوئی بات بنے"

وہ اپنے پاس بلائے تو کوئی بات بنے
اگر وہ بات بنائے تو کوئی بات بنے

وہ اپنی تیغ صفت آبدار نظروں سے
بلا کا وار چلائے تو کوئی بات بنے

ہمارا کیا ہے ابھی چُٹکیوں میں بک جائیں
مگر وہ دام لگائے تو کوئی بات بنے

اسی کی صوت میں کوئل کے سُر بکھرتے ہیں
وہ آج گیت سنائے تو کوئی بات بنے

یہ عاشقی کا تقاضہ رہا ہے عاشق سے
وہ اپنا خون بہائے تو کوئی بات بنے

اگر وہ جامِ مودّت بنا کے ہونٹوں کو
شرابِ خاص پلائے تو کوئی بات بنے

ہر ایک دُکھ میں کڑے ضبط کا دعوٰی ہے جسے
وہ اپنی لاش اُٹھائے تو کوئی بات بنے

جُھلس رہے ہیں سبھی آگ میں، دعا مانگو
وہ آسمان گرائے تو کوئی بات بنے

مزہ تو جب ہے کہ بانہوں میں ڈال کر بانہیں
وہ اپنی عید منائے تو کوئی بات بنے

وہ جسکے ہاتھ میں تقدیر ہے مری آسی
وہ مجھ کو ہاتھ لگائے تو کوئی بات بنے


محمد ارتضٰٰی آسی​
 
مجموعی طور پر اچھی کاوش ہے، محترمی۔ تاہم کچھ باتیں نوٹ کرنے کی ہیں۔


اسی اقتباس میں نیلے رنگ کی عبارت دیکھ لیجئے گا۔

اسی کی صوت میں کوئل کے سُر بکھرتے ہیں
وہ آج گیت سنائے تو کوئی بات بنے​
خاص اس شعر کی لفظیاتی فضا میں "صوت" کچھ اجنبی سا لگ رہا ہے، یہ نقص تو نہیں تاہم کوئی مناسب ترمیم کر سکیں تو شعر اور اٹھ جائے۔
یہ عاشقی کا تقاضہ رہا ہے عاشق سے
وہ اپنا خون بہائے تو کوئی بات بنے​
درست ہجے ہیں "تقاضا" ۔ اس شعر میں ردیف زائد محسوس ہو رہی ہے۔
ہر ایک دُکھ میں کڑے ضبط کا دعوٰی ہے جسے
وہ اپنی لاش اُٹھائے تو کوئی بات بنے​
پہلا مصرع وزن سے خارج ہو گیا۔

جُھلس رہے ہیں سبھی آگ میں، دعا مانگو
وہ آسمان گرائے تو کوئی بات بنے​
آگ میں جلنا ہوتا ہے، جھلسنا پر جناب الف عین کی رائے لے لیجئے۔ میں یہ شعر کہتا تو بارش کی دعا مانگنے کا کہتا نہ کہ آسمان گرانے کی۔ بہر حال، یہ تو اپنے اپنے مزاج اور اندازِ فکر و احساس کی بات ہے۔

مزہ تو جب ہے کہ بانہوں میں ڈال کر بانہیں
وہ اپنی عید منائے تو کوئی بات بنے​
مزہ یا مزا؟ یہ توثیق کر لیجئے گا۔ "مزہ تو جب ہے" ۔۔ اس کے ساتھ" تو کوئی بات بنے" کی ضرورت نہیں رہتی۔


بہت شکریہ
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
خوب۔ ایک بار جناب محترم محمد قمر نقوی صاحب کی اسی زمین میں ایک غزل دیکھی تھی شاید۔۔۔ پوری طرح کنفرم نہیں :(
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہر ایک دُکھ میں کڑے ضبط کا دعوٰی ہے جسے
اس مصرع کا وزن الفاظ کی ترتیب درست نہ ہونے سے بگڑ رہا ہے۔مصرع دوبارہ کہا جائے تو اچھا ہے۔
زبان و بیان میں ذرا کسر ہے۔ آگ میں جھلسنا کے بجائے آگ سے جھلسنا بہتر ہے۔ لفظ صوت کو مرکب شکل میں استعمال کیا جائےتو فٹ لگے گی۔ فقرے کی شکل کے رواں نہیں لگتی۔۔ ۔
ہاتھ لگا نا بھی شائستہ نہیں لگا ۔ہاتھ ملانا ہو سکتا ہے۔
 
مجموعی طور پر اچھی کاوش ہے، محترمی۔ تاہم کچھ باتیں نوٹ کرنے کی ہیں۔



بہت شکریہ

شکراً جناب محمد یعقوب آسی صاحب
آپ کی بہت سی باتوں سے متفق ہوں

اسی کی صوت میں کوئل کے سُر بکھرتے ہیں
وہ آج گیت سنائے تو کوئی بات بنے


لفظِ صوت کی جگہ کوئی بہتر اور فضائے شعری سے ہم آہنگ لفظ عنایت کر دیں

یہ عاشقی کا تقاضہ رہا ہے عاشق سے
وہ اپنا خون بہائے تو کوئی بات بنے


اس شعر میں ردیف زائد کیسے ہے، مجھ پہ کھل نہیں رہا
وضاحت کردیں تو عنایت ہوگی

البتہ اس شعر میں،
جُھلس رہے ہیں سبھی آگ میں، دعا مانگو
وہ آسمان گرائے تو کوئی بات بنے

دستِ ادب جوڑ کے عرض کر رہا ہوں
آسمان کی بات یوں کی ہے کہ آگ ایسی لگی ہے جس میں تمام اہلِ دنیا جھلستے جا رہے ہیں
اس دنیا میں لگی ہوئی آگ سے تو امان ممکن نہیں
اب آسمان گرے گا تو یہ آگ بجھے گی اور نئی دنیا کا آغاز ہوگا
المختصر
آسمان کے گرنے کو قیامت سے تعبیر کیا ہے

اس فکر میں اگر کوئی خطا ہے تو رہنمائی کا طالب ہوں

آپ کی رائے کا منتظر
 
اس مصرع کا وزن الفاظ کی ترتیب درست نہ ہونے سے بگڑ رہا ہے۔مصرع دوبارہ کہا جائے تو اچھا ہے۔
زبان و بیان میں ذرا کسر ہے۔ آگ میں جھلسنا کے بجائے آگ سے جھلسنا بہتر ہے۔ لفظ صوت کو مرکب شکل میں استعمال کیا جائےتو فٹ لگے گی۔ فقرے کی شکل کے رواں نہیں لگتی۔۔ ۔
ہاتھ لگا نا بھی شائستہ نہیں لگا ۔ہاتھ ملانا ہو سکتا ہے۔


متشکرم جناب سید عاطف علی صاحب
 
اسی کی صوت میں کوئل کے سُر بکھرتے ہیں
وہ آج گیت سنائے تو کوئی بات بنے


لفظِ صوت کی جگہ کوئی بہتر اور فضائے شعری سے ہم آہنگ لفظ عنایت کر دیں

یہ عاشقی کا تقاضہ رہا ہے عاشق سے
وہ اپنا خون بہائے تو کوئی بات بنے


اس شعر میں ردیف زائد کیسے ہے، مجھ پہ کھل نہیں رہا
وضاحت کردیں تو عنایت ہوگی

(1) ایک لفظ کے بدلے ایک لفظ مشکل ہی سے ملا کرتا ہے۔ ایسی صورت میں مصرع اور کبھی شعر بدل دیتے ہیں، کبھی نشان زدہ لفظ وہی رہتا ہے ترمیم کسی دوسرے لفظ یا الفاظ میں ہوتی ہے۔ یہاں مجھے ایک اور خیال آ گیا۔ کوئل اور کُوک بہت رومانی تعلق ہے، اس سے کام لیجئے۔

(2) ’’عاشقی کا یہ تقاضا ہے کہ عاشق اپنا خون بہائے‘‘۔ میرے حساب سے تو بات مکمل ہو گئی، بس!
 
(1) ایک لفظ کے بدلے ایک لفظ مشکل ہی سے ملا کرتا ہے۔ ایسی صورت میں مصرع اور کبھی شعر بدل دیتے ہیں، کبھی نشان زدہ لفظ وہی رہتا ہے ترمیم کسی دوسرے لفظ یا الفاظ میں ہوتی ہے۔ یہاں مجھے ایک اور خیال آ گیا۔ کوئل اور کُوک بہت رومانی تعلق ہے، اس سے کام لیجئے۔

(2) ’’عاشقی کا یہ تقاضا ہے کہ عاشق اپنا خون بہائے‘‘۔ میرے حساب سے تو بات مکمل ہو گئی، بس!

بہت نوازش حضور۔۔۔
زندگیاں ہوں
 
جناب ۔۔۔۔۔۔
البتہ اس شعر میں،
جُھلس رہے ہیں سبھی آگ میں، دعا مانگو
وہ آسمان گرائے تو کوئی بات بنے

دستِ ادب جوڑ کے عرض کر رہا ہوں
آسمان کی بات یوں کی ہے کہ آگ ایسی لگی ہے جس میں تمام اہلِ دنیا جھلستے جا رہے ہیں
اس دنیا میں لگی ہوئی آگ سے تو امان ممکن نہیں
اب آسمان گرے گا تو یہ آگ بجھے گی اور نئی دنیا کا آغاز ہوگا
المختصر
آسمان کے گرنے کو قیامت سے تعبیر کیا ہے

اس فکر میں اگر کوئی خطا ہے تو رہنمائی کا طالب ہوں

آسمان گرنا، آسمان ٹوٹ پڑنا: مصیبت پڑنے کے معانی میں معروف ہے۔ آپ قیامت (روزِ محشر) کو کیا سمجھتے ہیں، وہ جس کی سختی سے انبیائے کرام بھی پناہ مانگتے ہیں؟ آپ یہ سوال نہ اٹھاتے تو میں یہ سطر نہ لکھتا، اس لئے کہ ایک قاری کی حیثیت سے میں نے ایک رائے دی ہے، آپ اس کو رد کر دیجئے، قبول کر لیجئے، آپ پر منحصر ہے۔ وضاحت پیش کرنا یا طلب کرنا ضروری نہیں تھا۔ جب یہ کہا کہ "دعا مانگو" تو دعا تو سکون، شانتی، امن کے لئے مانگی جاتی ہے، کوئی آسمان گرنے کی دعا مانگتا ہے، مانگے؛ ضروری نہیں کہ دوسرے اس سے متفق ہوں۔ اسی لئے میں نے کہا تھا کہ سوچ اپنی اپنی! میں کون ہوتا ہوں جناب آپ کی سوچ پر پابندی لگانے والا؟

رہی زبان کی بات، ایک تو آسمان گرنا محاورہ ہوا اس کو ہم نہیں بدل سکتے کہ یہ صدیوں سے رائج ہے اور عام ذہن اس کے مروجہ معانی سے ہٹ کر اسے قبول کرے، نہ کرے!
دوسرے ۔۔۔ جلنا اور جھلسنا: کوئی یا تو لو میں جھلستا ہے یا دھوپ میں یا ریت وغیرہ میں؛ آگ میں جلنا ہوتا ہے، آگ میں جھلسنا میرے لئے اجنبی ہے اسی لئے الف عین صاحب کی توجہ چاہی تھی کہ وہ بہتر راہنمائی کر سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
اب ایک قاعدے کی بات ۔۔۔۔
شعر کی ایک بڑی خامی یہ ہوتی ہے کہ شاعر کو ادب کے عام قاری کے سامنے اس کے مفاہیم اور ما فی ضمیر بیان کرنے پڑیں۔ شعر کو خود اپنا ابلاغ کرنا چاہئے، اتفاق یا اختلاف کی بات الگ ہے۔
بہت شکریہ۔

برائے توجہ جناب الف عین صاحب۔
 
آخری تدوین:
جناب ۔۔۔۔۔۔


آسمان گرنا، آسمان ٹوٹ پڑنا: مصیبت پڑنے کے معانی میں معروف ہے۔ آپ قیامت (روزِ محشر) کو کیا سمجھتے ہیں، وہ جس کی سختی سے انبیائے کرام بھی پناہ مانگتے ہیں؟ آپ یہ سوال نہ اٹھاتے تو میں یہ سطر نہ لکھتا، اس لئے کہ ایک قاری کی حیثیت سے میں نے ایک رائے دی ہے، آپ اس کو رد کر دیجئے، قبول کر لیجئے، آپ پر منحصر ہے۔ وضاحت پیش کرنا یا طلب کرنا ضروری نہیں تھا۔ جب یہ کہا کہ "دعا مانگو" تو دعا تو سکون، شانتی، امن کے لئے مانگی جاتی ہے، کوئی آسمان گرنے کی دعا مانگتا ہے، مانگے؛ ضروری نہیں کہ دوسرے اس سے متفق ہوں۔ اسی لئے میں نے کہا تھا کہ سوچ اپنی اپنی! میں کون ہوتا ہوں جناب آپ کی سوچ پر پابندی لگانے والا؟

رہی زبان کی بات، ایک تو آسمان گرنا محاورہ ہوا اس کو ہم نہیں بدل سکتے کہ یہ صدیوں سے رائج ہے اور عام ذہن اس کے مروجہ معانی سے ہٹ کر اسے قبول کرے، نہ کرے!
دوسرے ۔۔۔ جلنا اور جھلسنا: کوئی یا تو لو میں جھلستا ہے یا دھوپ میں یا ریت وغیرہ میں؛ آگ میں جلنا ہوتا ہے، آگ میں جھلسنا میرے لئے اجنبی ہے اسی لئے الف عین صاحب کی توجہ چاہی تھی کہ وہ بہتر راہنمائی کر سکتے ہیں۔


جناب!
بات کچھ یوں ہے کہ
دعا لوگ موت کی بھی مانگتے ہیں اور قیامت کی بھی
بات اگر دعا کی ہے تو دعا مقید نہیں ہوتی
دوسری بات یہ کہ
انبیائے کرام پناہ مانگتے تھے مگر اس میں خوفِ خدا کا عنصر موجود تھا جسے قرآن نے (اتّقاء) کے صیغے سے واضح کیا ہے
ہم ڈرتے ہیں اپنے گناہوں کے سبب
اگر ہم گناہگار نہ ہوں تو روزِ محشر کا خوف کیا
اور سکون ہی اگر محورِ دعا ہے تو ابدی زندگی میں ہی سکونِ کامل میسر آسکتا ہے
اس زاویے سے آسمان کا گرنا تو واجب ہے

بات رہی (جلنا اور جھلسنا) کی
تو ہم نے آگ سے جھلسنا سنا ہے
لیکن الف عین صاحب کی رہنمائی کا انتظار ہے

دلی طور پر آپ سے گفتگو کر کے بہت خوشی ہوتی ہے
بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے
ہمیشہ آپ کی رہنمائی کا طالب رہوں گا
آپ سے بنا ہوا یہ رشتہ ہمیشہ برقرار رہے
آمین
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں آگ میں جھلسنا بھی کہا جاتا ہے۔ ویسے زیادہ صحیح آگ ’سے‘ جھلسنا ہی ہے۔
اشعار کے اوزان پر ایک تو اسی مصرع کی وجہ سے شک ہوا تھا جس کو وزن سے خارج قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن کے افاعیل میں ’بات کوئی بنے‘ میں زیادہ روانی محسوس ہوتی ہے۔ کوئی بات بنے میں اگر ’کوءِ‘ بات بنے تو مختلف افعاعیل ہو جاتے ہیں، اور ’کُ ئی‘ بات بنے ہو تو مختلف۔ اس لئے مزمل شیخ بسمل کو ٹیگ کیا تھا۔
 
باقی باتیں باتیں ہوچکی ہیں. مجھے آنے میں تاخیر ہوئی اس کے لیے معذرت.
غزل میں وزن سے خارج وہی مصرع ہے جس کا ذکر اوپر خلیل بھائی نے کردیا ہے.
باقی "بات کوئی بنے" یا "کوئی کوئی بات بنے" میں انتخاب کا انحصار شاعر کی صوابدید پر ہے. مجھے ذاتی طور پر اسی طرح درست لگ رہا ہے جیسا کہ شاعر نے باندھابہے.
 
Top