غزل برائے اصلاح: فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

وہ یہ دن بھی دکھائے گا سوچا نہ تھا
وہ مجھےچھوڑ جائے گا سوچا نہ تھا
وہ فسانہ کہ جس میں تھے یک جان ہم
اتنی جلدی بھلائے گا سوچا نہ تھا
ہر سمے ملتا تھا مسکراتا ہوا
وہ ہنسی بھی اڑائے گا سوچا نہ تھا
سارے خط اور تحفےوہ لوٹا گیا
اتنی نفرت دکھائے گا سوچا نہ تھا
آج محفل سے اس نے نکالا مجھے
یوں تماشا بنائے گا سوچا نہ تھا
نام اپنا لکھا ساتھ میرا نہ تھا
وہ لکھے کو مٹائے گا سوچا نہ تھا
تجھ کو پاکر ہواؤں میں اڑتا تھا میں
منہ کے بل توگرائے گا سوچا نہ تھا
سرد مہری دکھا کر جدا ہو گیا
یوں ستمگر ستائے گا سوچا نہ تھا
لب کشا جو ہوا" چپ "کا نعرہ لگا
مجھ پہ ایسے چلائے گا سوچا نہ تھا
دیکھ کے اسکو آنکھیں چھلکنے لگیں
وہ ٹشو بھی چھپائے گا سوچا نہ تھا
میرے دکھ میرےشعروں میں گھل مل گئے
وہ غزل میری گائے گا سوچا نہ تھا
 
ہماری صلاح حاضر ہے

ہر سمے ملتا تھا مسکراتا ہوا
وہ ہنسی بھی اڑائے گا سوچا نہ تھا

وہ ہمیشہ ملا مسکراتا ہوا
اب ہنسی بھی اُڑائے گا سوچا نہ تھا

لب کشا جو ہوا" چپ "کا نعرہ لگا
مجھ پہ ایسے چلائے گا سوچا نہ تھا
یوں وہ غصٌہ دکھائے گا سوچا نہ تھا

دیکھ کے اسکو آنکھیں چھلکنے لگیں
وہ ٹشو بھی چھپائے گا سوچا نہ تھا
دیکھ کر اس کو آنکھیں چھلکنے لگیں
وہ بھی آنسو چھپائے گا سوچا نہ تھا
 
Top