غزل برائے اصلاح : تسلی بھی مجھے دیتے ہیں پر بیزار ملتے ہیں : عمران نیازی

Imran Niazi

محفلین
تسلی بھی مجھے دیتے ہیں پر بیزار ملتے ہیں
بھلا یہ کس طرح مجھکو میرے غمخوار ملتے ہیں ؟
سبھی ہیں رات کے باسی، سبھی ہیں ذات کے قیدی
پہ باہر سے تو ہو کہ سب بڑے جی دار ملتے ہیں
اُنہیں تکنا بہت مشکل ، انہیں ملنا بہت آساں
کہ وہ اُس پار بستے ہیں تو یہ اِس پار ملتے ہیں
بہت ساروں کو دنیا راستے میں روک لیتی ہے
محبت سب ہی کرتے ہیں ، کوئی دو چار ملتے ہیں
جنہیں ملنے پہ دل اکثر بہت اصرار کرتا ہے
وہ سالوں میں کبھی آکر میرے غم خوار ملتے ہیں
ملنے کو مجھے تو روز کتنے یار ملتے ہیں
سبھی کو کام ہوتا ہے ، سبھی بیکار ملتے ہیں
مجھے دنیا کہ اِس انداز سے نفرت بلا کی ہے
کہ لب پہ پھول ہیں سب کے پہ اندر خار ملتے ہیں
بلا کی سادگی ہے تیرے چہرے پر مگر مجھکو
تیری آنکھوں میں پنہاں بے پناہ اسرار ملتے ہیں
تمہارا نام ہر لب پر ، ترا جادو چلا سب پر
ترے اَس شہر میں تو سب ترے بیمار ملتے ہیں
کسی کی کم کلامی پہ گلہ عمران اب کیسا ؟
کہ مرگِ دل کے اب تو خود میں آثار ملتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
تسلی بھی مجھے دیتے ہیں پر بیزار ملتے ہیں
بھلا یہ کس طرح مجھکو میرے غمخوار ملتے ہیں ؟

//درست تو ہے لیکن کچھ بہتر شکل
تسلی بھی مجھے دیتے ہیں اور بیزار ملتے ہیں
بھلا یہ کس طرح مجھ کو مرے غمخوار ملتے ہیں ؟

سبھی ہیں رات کے باسی، سبھی ہیں ذات کے قیدی
/// رات کے باسی؟ اس کا کیا محل ہے؟

پہ باہر سے تو ہو کہ سب بڑے جی دار ملتے ہیں
///مصرع بے معنی ہے، شاید یوں ہو اور ٹائپو ہو تب بھی ’ہو کر‘ کا استعمال غلط ہے۔
پہ باہر سے تو ہو کر سب بڑے جی دار ملتے ہیں

اُنہیں تکنا بہت مشکل ، انہیں ملنا بہت آساں
///یہ دونوں کون ہیں؟ بہر حال کچھ بہتر اور رواں شکل:
اُنہیں ملنا جو مشکل ہے تو اِن کی دید آساں ہے
کہ وہ اُس پار بستے ہیں تو یہ اِس پار ملتے ہیں

بہت ساروں کو دنیا راستے میں روک لیتی ہے
محبت سب ہی کرتے ہیں ، کوئی دو چار ملتے ہیں
///پہلا مصرع رواں ہے۔ لیکن دوسرا مصرع بے معنی لگتا ہے۔ دو چار کہاں ملتے ہیں؟ منزل پہنچ کر؟ کوئی سمجھنے کا قرینہ نہیں۔

جنہیں ملنے پہ دل اکثر بہت اصرار کرتا ہے
وہ سالوں میں کبھی آ کر میرے غم خوار ملتے ہیں
/// یا تو کوئی اکثر اصرار کر سکتا ہے۔ یا ’بہت کر سکتا ہے، دونوں ایک ساتھ!!!
دوسرا مصرع بھی بے معنی ہے۔

ملنے کو مجھے تو روز کتنے یار ملتے ہیں
//// یہ حسن مطلع ہے؟ یہ مصرع بحر سے خارج ہے، جب کہ یہ دوسرا مصرع بے معنی ہے، کام بھی ہو اور بیکار بھی، کیسے ممکن ہے؟
سبھی کو کام ہوتا ہے ، سبھی بیکار ملتے ہیں

مجھے دنیا کہ اِس انداز سے نفرت بلا کی ہے
/// مجھے دنیا کے اِس انداز سے نفرت بلا کی ہے
کہ لب پہ پھول ہیں سب کے پہ اندر خار ملتے ہیں
/// بہتر صورت
لبوں پر پھول ہیں لیکن دلوں میں خار ملتے ہیں

بلا کی سادگی ہے تیرے چہرے پر مگر مجھکو
تیری آنکھوں میں پنہاں بے پناہ اسرار ملتے ہیں
///درست، صرف دوسرے مصرعے میں ’تری‘ کا محل ہے

تمہارا نام ہر لب پر ، ترا جادو چلا سب پر
ترے اَس شہر میں تو سب ترے بیمار ملتے ہیں
//////پہلے مصرع میں ایک جگہ تم، دوسری جگہ تو؟
بہتر صورت
ترا ہی نام ہر لب پر ، ترا جادو چلا سب پر
کہیں بھی شہر میں جاؤ، ترے بیمار۔۔۔۔۔

کسی کی کم کلامی پہ گلہ عمران اب کیسا ؟
کہ مرگِ دل کے اب تو خود میں آثار ملتے ہیں
///پہلا مصرع درست( صرف ’پہ‘ کی جگہ ’پر‘ کر دو۔)
دوسرا مصرع بے معنی؟
 

Imran Niazi

محفلین
تسلی بھی مجھے دیتے ہیں پر بیزار ملتے ہیں
بھلا یہ کس طرح مجھکو میرے غمخوار ملتے ہیں ؟

//درست تو ہے لیکن کچھ بہتر شکل
تسلی بھی مجھے دیتے ہیں اور بیزار ملتے ہیں
بھلا یہ کس طرح مجھ کو مرے غمخوار ملتے ہیں ؟

سبھی ہیں رات کے باسی، سبھی ہیں ذات کے قیدی
/// رات کے باسی؟ اس کا کیا محل ہے؟

پہ باہر سے تو ہو کہ سب بڑے جی دار ملتے ہیں
///مصرع بے معنی ہے، شاید یوں ہو اور ٹائپو ہو تب بھی ’ہو کر‘ کا استعمال غلط ہے۔
پہ باہر سے تو ہو کر سب بڑے جی دار ملتے ہیں

اُنہیں تکنا بہت مشکل ، انہیں ملنا بہت آساں
///یہ دونوں کون ہیں؟ بہر حال کچھ بہتر اور رواں شکل:
اُنہیں ملنا جو مشکل ہے تو اِن کی دید آساں ہے
کہ وہ اُس پار بستے ہیں تو یہ اِس پار ملتے ہیں

بہت ساروں کو دنیا راستے میں روک لیتی ہے
محبت سب ہی کرتے ہیں ، کوئی دو چار ملتے ہیں
///پہلا مصرع رواں ہے۔ لیکن دوسرا مصرع بے معنی لگتا ہے۔ دو چار کہاں ملتے ہیں؟ منزل پہنچ کر؟ کوئی سمجھنے کا قرینہ نہیں۔

جنہیں ملنے پہ دل اکثر بہت اصرار کرتا ہے
وہ سالوں میں کبھی آ کر میرے غم خوار ملتے ہیں
/// یا تو کوئی اکثر اصرار کر سکتا ہے۔ یا ’بہت کر سکتا ہے، دونوں ایک ساتھ!!!
دوسرا مصرع بھی بے معنی ہے۔

ملنے کو مجھے تو روز کتنے یار ملتے ہیں
//// یہ حسن مطلع ہے؟ یہ مصرع بحر سے خارج ہے، جب کہ یہ دوسرا مصرع بے معنی ہے، کام بھی ہو اور بیکار بھی، کیسے ممکن ہے؟
سبھی کو کام ہوتا ہے ، سبھی بیکار ملتے ہیں

مجھے دنیا کہ اِس انداز سے نفرت بلا کی ہے
/// مجھے دنیا کے اِس انداز سے نفرت بلا کی ہے
کہ لب پہ پھول ہیں سب کے پہ اندر خار ملتے ہیں
/// بہتر صورت
لبوں پر پھول ہیں لیکن دلوں میں خار ملتے ہیں

بلا کی سادگی ہے تیرے چہرے پر مگر مجھکو
تیری آنکھوں میں پنہاں بے پناہ اسرار ملتے ہیں
///درست، صرف دوسرے مصرعے میں ’تری‘ کا محل ہے

تمہارا نام ہر لب پر ، ترا جادو چلا سب پر
ترے اَس شہر میں تو سب ترے بیمار ملتے ہیں
//////پہلے مصرع میں ایک جگہ تم، دوسری جگہ تو؟
بہتر صورت
ترا ہی نام ہر لب پر ، ترا جادو چلا سب پر
کہیں بھی شہر میں جاؤ، ترے بیمار۔۔۔۔۔

کسی کی کم کلامی پہ گلہ عمران اب کیسا ؟
کہ مرگِ دل کے اب تو خود میں آثار ملتے ہیں
///پہلا مصرع درست( صرف ’پہ‘ کی جگہ ’پر‘ کر دو۔)
دوسرا مصرع بے معنی؟

یہ غزل تو گئی :)
ویسے سر مجھے پہلے ہی اِس غزل سے یہی امید تھی

بہت شکریہ
 
Top