غزل اس نے چھیڑی

اس دھاگے میں اپنی پسند کی کوئی ایک غزل شئر کریں۔۔

میری طرف سے ابن انشاء کی مشہور غزل پیش خدمت ہے۔

کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نےکہا چہرا تیرا

ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا

اس شہر میں کس سے ملیں؟ ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

کوچے کو تیرے چھوڑ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا

دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پر آ کر ٹک گئے
الطاف کی بارش تیری، اکرام کا دریا تیرا

ہم پر یہ سختی کی نظر؟ ہم ہیں فقیرِ راہ گزر
رستہ کبھی روکا تیرا؟ دامن کبھی تھاما تیرا؟

ہاں ہاں تیری صورت حسیں، لیکن تو ایسا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے، شہرہ ہوا کیا کیا تیرا

بے درد سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، انشاء تیرا

(کچھ اشعار جان بوجھ کر نہیں لکھے)
 
م

محمد سہیل

مہمان
کس حرف پہ تونے گوشہء لب اے جان جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا

سو پیکاں تھے پیوست گلو، جب چھیڑی ہم نے رقص آغاز
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا

بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اس ہاتھ پہ سر، اُس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقت سفر نظارہء بام ناز کیا

جس خاک میں مل کر خاک ہوئے، وہ سرمہء چشم خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خوں چھڑکا، ہمرنگ گل طناز کیا

لو وصل کی ساعت آپہنچی، پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کئے، اور سینے کا در باز کیا

(فیض احمد فیض)
 

راجہ صاحب

محفلین
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

عہد جوانی رو رو کاٹا پیر ی میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرمہے کیا احرام
کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں
جُبہخرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا

یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا

ساعدِ سمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے
بُھولے اُس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا

کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت ہے
استغنا کی چوگنی اُن نے جُوں جُوں میں ابرام کیا

ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

میر
 
Top