غزل۔ یہ تو ہونا ہی ہے کبھو نہ کبھو ۔ رفیق اظہر

فرخ منظور

لائبریرین
اس اتوار کو میں حلقۂ اربابِ ذوق گیا تو رفیق اظہر صاحب کو بیٹھے دیکھا۔ میں نے انہیں ان کا وعدہ یاد کروایا کہ آپ نے مجھے اپنی کتاب (آدھی موت) ارسال کرنا تھی لیکن ابھی تک شاید آپ ارسال نہیں کر سکے، تو انہوں نے کمالِ مہربانی سے اسی وقت اپنی کتاب اپنے بیگ سے مجھے نکال کر تھما دی۔ میں بہت خوش ہوا اور ان کا انتہائی شکریہ ادا کیا۔ رفیق اظہر صاحب کی غزل کے موضوعات مجھے بہت ہٹ کے اور انوکھے لگے ہیں ۔ سو یہاں ان کا کچھ کلام ارسال کر رہا ہوں۔

غزل

یہ تو ہونا ہی ہے کبھو نہ کبھو
پہلے میں چل بسوں کہ پہلے تُو

گوندھی جائے گی پھر تری مٹّی
پھر کسی چاک پر چڑھے گا تُو

دوستی، دشمنی کے سنگ پلے
ہائے یہ اختلاف کے پہلو

سر پہ گزرے گی دلّی کی بپتا
میر صاحب بہائیں گے آنسو

غم و لالچ کے درمیاں آ کر
کوئی غالب لکھے گا دستنبُو

جا! نہیں مانتے اہنسا کو
مار ڈالا ہے قوم نے باپو

انگلیوں سے جدا کیے ناخن
پڑ گیا نام اجل کا گستاپو

کوئی منصف مجھے تلاش کرے
میں نے چہرے پہ مل لیا ہے لہو

کوئی مارا گیا کہ آپ مرا
چھوڑنا ہے جہانِ رنگ و بُو

کارخانۂ ہوُ میں بیٹھا ہے
کافیاں بولتا کوئی باہُو

دیکھ مینار یہ سروں کا ہے
وقت کے جبر سے مگر ڈر تُو

(رفیق اظہر)
 

Saraah

محفلین
ہمممم

کوئی منصف مجھے تلاش کرے
میں نے چہرے پہ مل لیا ہے لہو

کوئی مارا گیا کہ آپ مرا
چھوڑنا ہے جہانِ رنگ و بُو

کارخانۂ ہوُ میں بیٹھا ہے
کافیاں بولتا کوئی باہُو


یہ اشعار بھی بہت اچھے لگے
 

مغزل

محفلین
بہت خوب ، فرخ صاحب، بات تو یہاں بھی ہوسکتی ہے ،مگر مذاقِ سلیم پر سلوٹ نہ پر جائے سو ،م پیش کرنے پر مبارکباد قبول کیجے
 
Top