پیرزادہ قاسم غزل۔ کب تک کوئی طوفان اٹھانے کے نہیں ہم۔ پیرزادہ قاسم

فرحت کیانی

لائبریرین
کب تک کوئی طوفان اُٹھانے کے نہیں ہم
بے صرفہ تو اب جان سے جانے کے نہیں ہم

تعبیر گرو، مہلتِ خمیازہ تو دے دو
ہر روز نیا خواب سنانے کے نہیں ہم

جب گفتگو اک عہدِ گراں گوش سے ٹھہرے
کر گزریں گے کچھ، شور مچانے کے نہیں ہم

اب یوں ہے کہ ہم خود سے ہوئے برسرِ پیکار
مجبوری ہے یا فرض ، بتانے کے نہیں ہم

لازم نہیں افسانہ حسیں موڑ پہ چھوڑیں
بنتی ہو مگر بات بنانے کے نہیں ہم

بے نُور اُجالے ہوں تو پھر دل ہی جلیں گے
یہ آخری شمعیں تو بجھانے کے نہیں ہم

یہ گھر تو نہیں ہے کہ جو گھبرائیں نکل جائیں
صحرا ہے سو اب یاں سے تو جانے کے نہیں ہم

یہ حسرتِ نم ، اشکِ ندامت ہی نہ کہلائے
روئیں گے مگر اشک بہانے کے نہیں ہم

معلوم ہے خمیازۂ حسرت ہمیں یعنی
کھو بیٹھیں گے خود کو تمہیں پانے کے نہیں ہم

۔۔۔ڈاکٹر پیرزادہ قاسم
 

فاتح

لائبریرین
کب تک کوئی طوفان اُٹھانے کے نہیں ہم
بے صرفہ تو اب جان سے جانے کے نہیں ہم

تعبیر گرو! مہلتِ خمیازہ تو دے دو
ہر روز نیا خواب سنانے کے نہیں ہم

جب گفتگو اک عہدِ گراں گوش سے ٹھہرے
کر گزریں گے کچھ، شور مچانے کے نہیں ہم
خوبصورت انتخاب ارسال کرنے پر آپ کا شکریہ! ڈاکٹر صاحب کمال کا لکھتے ہیں۔
 
تعبیر گرو، مہلتِ خمیازہ تو دے دو
ہر روز نیا خواب سنانے کے نہیں ہم

بہت خوب فرحت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ کہاں غائب ہیں آپ؟
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب فرحت صاحبہ!

ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی عمدہ انتخاب لے کر آئیں ہیں آپ۔ بہت اچھی غزل ہے۔
 
جب گفتگو اک عہدِ گراں گوش سے ٹھہرے
کر گزریں گے کچھ، شور مچانے کے نہیں ہم

یہ حسرتِ نم ، اشکِ ندامت ہی نہ کہلائے
روئیں گے مگر اشک بہانے کے نہیں ہم


واہ بہت عمدہ کلام ہے۔ شکریہ فرحت صاحبہ۔۔۔۔۔
 
بہت خوب فرحت !
اب یوں ہے کہ ہم خود سے ہوئے برسرِ پیکار
مجبوری ہے یا فرض ، بتانے کے نہیں ہم
خوبصورت انتخاب ھے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جب گفتگو اک عہدِ گراں گوش سے ٹھہرے
کر گزریں گے کچھ، شور مچانے کے نہیں ہم

اب یوں ہے کہ ہم خود سے ہوئے برسرِ پیکار
مجبوری ہے یا فرض ، بتانے کے نہیں ہم

بے نُور اُجالے ہوں تو پھر دل ہی جلیں گے
یہ آخری شمعیں تو بجھانے کے نہیں ہم

واہ! کیا بات ہے ڈاکٹر صاحب کی ! بہت اعلیٰ !!
 
Top