غزل۔ میں نے مرنا تھا بھلے لاکھ صفائی دیتا ۔

دستِ قاتل کہ نہیں اِذنِ رہائی دیتا
میں نے مرنا تھا بھلے لاکھ صفائی دیتا

میں کہ احساس تھا ، محسوس کیا جانا تھا
میں کوئی رُوپ نہیں تھا کہ دکھائی دیتا

دامنِ چاک تو گُل رنگ ہوا جاتا ہے
اور خیرات میں کیا دستِ حنائی دیتا

اب کہیں ہو تو صدا دے کے پکارو ورنہ
اس اندھیرے میں نہیں کچھ بھی سُجھائی دیتا

داد و تحسین کے ہنگام میں دل کا نوحہ
پردہِ شعر ہٹانے پہ سُنائی دیتا

میں ترے درد کی جاگیر کہاں دیتا تھا
وقت بدلے میں بھلے ساری خُدائی دیتا

دل کو لے دے کے مُیسر ہی یہی مقتل تھا
اور کم بخت کہاں جا کے دُہائی دیتا

میں تو پابندِ دُعا تھا کہ گداگر ٹھہرا
کاسہِ عشق میں چاہے وہ جُدائی دیتا

زندگی دوڑ کے لپکی تھی، مگر دیوانہ
آن پہنچا ہے سرِ دار ، جُھکائی دیتا

ناصر محمود خالد
 
Top