افتخار عارف غزل۔ عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی ۔ افتخار عارف

محمداحمد

لائبریرین
غزل

عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
نئے سفر کے لئے راستہ نہ مانگے کوئی

بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی

تمام شہر مکّرم بس ایک مجرم میں
سو میرے بعد مرا خوں بہا نہ مانگے کوئی

کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے
نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ مانگے کوئی

عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو بہار بھی آئے
اس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی

افتخار عارف
 
کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے
نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ مانگے کوئی

عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو بہار بھی آئے
اس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی
واہ واہ بہت ہی خوبصورت غزل ہے افتخار عارف کی !
درج بالا اشعار تو بہت ہی عمدہ ہیں ۔۔۔کیا کہنے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے
نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ مانگے کوئی

عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو بہار بھی آئے
اس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی
واہ واہ بہت ہی خوبصورت غزل ہے افتخار عارف کی !
درج بالا اشعار تو بہت ہی عمدہ ہیں ۔۔۔ کیا کہنے ۔

بہت شکریہ مدیحہ صاحبہ !

انتخاب کی پسندیدگی کا شکریہ ۔
 
لاجواب انتخاب
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی

تمام شہر مکّرم بس ایک مجرم میں
سو میرے بعد مرا خوں بہا نہ مانگے کوئی

عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو بہار بھی آئے
اس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی
 
Top